5
0
Thursday 1 Feb 2024 09:17

قائد شہید (رح) کا سیاسی سفر

قائد شہید (رح) کا سیاسی سفر
تحریر: سید نثار علی ترمذی

شہید علامہ عارف حسین الحسینی کو جو عزت، شرف، فضیلت، حثیت، اعتماد، عروج، مقبولیت اور قبولیت حاصل ہے، وہ ابھی تک کسی اور پاکستانی شخصیت کو تا حال میسر نہیں ہے۔
1۔ شہید الحسینی کو امام خمینی سے براہ راست کسب فیض حاصل کرنے کا  موقع ملا۔ آپ اپنی اکثر نمازیں امام خمینی کی اقتدا میں  ادا کرتے تھے۔
2۔ شہید کو امام خمینی نے 1973ء میں وکالت نامہ مرحمت فرمایا۔
3۔ شہید کو امام خمینی کی طرف سے پاکستان میں نمائندہ ولی فقیہ کی تقرری میں اولیت حاصل ہے۔
4۔ امام خمینی نے پاکستان میں فقط شہید حسینی کے افکار کو زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔
5۔ امام خمینی نے فقط شہید مطہری اور شہید حسینی کو اپنا بیٹا کہہ کر خراج تحسین پیش کیا۔

یہ چند سطریں لکھ کر واضح کر دیا ہے کہ شہید حسینی کے افکار و حکمت عملی کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے۔ اب موضوع پر بات کرتے ہیں۔ گو کہ گمبٹ کے اجلاس تحریک کی مرکزی کونسل نے قرارداد منظور کرکے سیاست میں  تحریک کے کردار کا تعین کر دیا تھا، لیکن اس کے باوجود شہید حسینی نے مزید آراء حاصل کرنے کے لیے خصوصی سروے کروایا۔ اس میں متعدد سوالات پوچھے گئے۔ ان میں سے بیشتر جواب کو ایک کتابچہ "تحریک کا سیاسی سفر" میں سمو دیا گیا ہے۔ اس میں اہم جواب علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم کا تھا۔ انہوں نے لکھا، اگر تحریک نے سیاست میں حصہ نہیں لینا تو اسے بند کر دینا چاہیئے۔

23 مارچ 1987ء کو وفاق علماء شیعہ پاکستان کے اجتماع کے موقع پر علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے تجویز پیش کی کہ تحریک، وفاق، آئی ایس او، آئی او اور جمعیت طلباء جعفریہ کی جانب سے مشترکہ اجتماع منعقد ہو اور اس میں سیاسی منشور پیش کیا جائے۔ شہید نے تجویز کو سراہتے ہوئے اسے 9.10 اپریل کو حیدر آباد سندھ میں ہونے والے تحریک کے تیسرے سالانہ کنونشن میں زیر غور لانے کا وعدہ کیا۔ کنونشن نے اس تجویز کو اس ترمیم کے ساتھ منظور کیا کہ اجتماع فقط تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے پلیٹ فارم سے منعقد کرنا چاہیئے۔ شہید نے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قرآن و سنت کانفرنس کے عنوان سے لاہور میں چھ جولائی 1987ء کو منعقد کرنے کا اعلان کر دیا اور منشور کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔ یوں منشور "ہمارا راستہ" تحریر ہوا، جسے تحریک کی سپریم کونسل کے اجلاس منعقدہ بھکر میں منظور کیا۔ یہ منشور 6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان کے میدان میں منعقدہ قرآن و سنت کانفرنس میں اعلان کیا۔
  
شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی حیات طیبہ میں ہی جنرل ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کرکے نوے دن میں انتخاب کروانے کا اعلان کر دیا تھا۔ شہید نے اسی حوالے مرکزی کونسل کا اجلاس 8 جولائی 1988ء کو جامعہ اہل بیت اسلام آباد میں طلب کیا تھا، جو شہید کا آخری اجلاس ثابت ہوا۔ اس میں الیکشن حصہ لینے کے لیے حکمت عملی طے کرنے بر بات ہوئی۔ طویل بحث کے بعد انتخاب میں حصہ لینے اور حکمت عملی طے کرنے کا اختیار شہید کو دے دیا گیا۔ (اس اجلاس کا تذکرہ شہید نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں، جو پارا چنار میں منعقد ہوئی تھی، کیا تھا۔ یہ پریس کانفرنس شہید کی سیاسی تقاریر پر مشتمل کتاب "اسلوب سیاست" میں چھپ چکی ہے.) بندہ ناچیز کو اس اجلاس میں شرکت کی سعادت حاصل رہی ہے۔ شہید نے اس پریس کانفرنس میں الیکشن کے حوالے سے پوچھے گیے سوالات کے جوابات دیئے ہیں، وہ درج زیل ہیں۔

سوال: کیا عام انتخابات کیلئے آپ عوام کو ایک منشور پیش کرینگے۔؟
جواب:
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے سال گذشتہ 6 جولائی کو مینار پاکستان پر ایک منشور عوام کو دیا تھا۔ اس منشور میں نظام کے حوالے سے، اقتصاد کے حوالے سے اور جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں، ان کے حوالے سے ہم نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ اب مزید دوسرے منشور کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ہمیں یہ احساس ہوا کہ اس میں کچھ ترامیم کرنی ہیں یا ان میں چیزیں زیادہ کرنی ہیں تو یہ ہم کرسکتے ہیں، لیکن منشور جو ہم نے 6 جولائی کو مینار پاکستان پر دیا ہے، اس میں ہم نے ایک منشور کمیٹی بنائی تھی، انہوں نے قرآن و سنت اور مراجع عظام کے فتاویٰ کو مدنظر رکھ کر یہ منشور بنایا ہے۔

سوال: کیا آپ خود الیکشن میں حصہ لیں گے۔؟
جواب:
اس سلسلے میں ابھی 8 جولائی کو گذشتہ جمعہ کو اسلام آباد،  جامعہ اہل بیت میں مرکزی کونسل کی ایک میٹنگ ہوئی، جس میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور یہ ہم نے یہ طے کیا کہ ہم نے انتخابات میں حصہ لینا ہے، لیکن ہم نے پہلے بھی ایک سیاسی سیل بنایا تھا، جسے آپ الیکشن سیل کہہ سکتے ہیں۔ اس کو ہم نے کہہ دیا ہے کہ توسیع دیں اور اس میں کچھ اور افراد بھی لے لیں اور حالات پر کڑی نظر رکھیں۔ مطالعہ کرتے رہتے رہیں، پھر ہم دیکھیں گے کہ حکومت کیا اعلان کرتی ہے۔ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں یا غیر جماعتی بنیادوں پر، متناسب نمائندگی وغیرہ تو جس طرح وہ اعلان ہوگا، اسی طرح ہمارا سیاسی فیصلہ ہوگا کہ ہمیں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔
5 اگست 1988ء کو علامہ عارف حسین الحسینی شہید  ہوگئے اور 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کریش ہوگیا۔
خبر کا کوڈ : 1113115
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
تحریک جعفریہ الیکشن میں شرکت کرتی رہی ہے۔ بعد از شھادت علامہ حسینی رح۔ تو یہ کوئی موضوع نزاع یا اختلافی نکتہ نہیں ہے۔ لیکن افکار حسینی رح کے پیش نظر مجموعی طور پر نتیجہ گیری کرنے کی ضرورت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنی چاہیئے۔ شھید رح کا دور آئین شکن ڈکٹیٹر کا دور تھا اور تب آئین کی بحالی اہم ترین ملی مسئلہ تھا۔ کیا 1985ء کے غیر جماعتی اںتخابات شھید رح قائد بنفس نفیس موجود تھے تو کیا تحریک نے الیکشن میں حصہ لیا؟؟؟ جواب؟؟ دوسرا یہ کہ اگر کسی نے الیکشن میں شرکت کو واجب عینی کا درجہ دے رکھا ہے تو اپنی فکر میں ترمیم کرے۔ ولایت فقیہ و دیگر مراجعین کے فتاویٰ مشروط اجازت دیتے ہیں۔ برادر بزرگ محترم ذیشان جعفری صاحب نے فیس بک پر رھبر معظم کا فتوی شیئر کیا ہے، اس میں بھی دو تا تین نکات درج ہیں۔ آپکا الیکشن میں شرکت کرنا فساد کو ختم کرنے یا کم کرنے کا سبب بنے اور اسلام و مسلمین کو تضعیف سے بچانے کا سبب بنے۔ یہ کوئی مشکل فیصلہ نہیں ہے، اس میں بہت آسان واضح راہ حل ہے اور معیار پچھلے الیکشنز کے بعد اگلے الیکشنز تک کی کارکردگی ہے۔ جو حصہ نہیں لینا چاہتا آپ اسے رھبر کا یا افکار حسینی رح کا مخالف کسی طور نہیں کہہ سکتے، بشرطیکہ وہ انہی افکار کی روشنی ہی میں اس پورے عمل کو دلائل سے ثابت کر دے کہ شرکت آج تک ان نتائج کو حاصل نہیں کر پائی، جو فتاویٰ و افکار کا مطلوب و مقصود ہیں۔ ولایت فقیہ و مرجعیت کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے۔ نتیجہ گیری جزوی حقائق سے نہ کریں، کلی طور مجموعی طور افکار کو لیں تو ایسا کہیں نہیں کہا کہ ہر قیمت پر آپ نے شرکت کرنی ہی کرنی ہے۔ شھید کی قیادت و زندگی میں 1985ء کا الیکشن ہوا تھا۔ چیزوں کو گڈمڈ نہ کریں، دین و سیاست جب جدا ہیں ہی نہیں تو یہ تو سرے سے مورد بحث ہی نہیں کہ سیاست میں حصہ نہیں لینا۔ افکار حسینی رح باھدف سیاست تابع اسلام ناب محمدی تابع ولایت فقیہ سیاست ہے نہ کہ کچھ اور۔
South Africa
85ء کے انتخاب غیر جماعتیں بنیادوں پر ہوئے تھے، جس کا بائیکاٹ سب جماعتوں نے کیا تھا اور شہید نے بھی بائیکاٹ کیا تھا۔ بائیکاٹ بھی سیاست تھی۔ اسی طرح استصواب رائے کا بائیکاٹ کیا تھا۔
Pakistan
آپ کے مطابق 1985ء کے الیکشن کا بائیکاِٹ کیا، دوسری جماعتوں نے بھی کیا۔ کیا دوسری جماعتوں کے زیر اثر یا دیکھا دیکھی بائیکاٹ کیا؟ یا آزاد الگ سے اپنا فیصلہ کیا؟ الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور ایسا کرنا بھی آپشن ہے، افکار حسینی رح کے عین مطابق۔
Pakistan
علامہ عارف حسینی رح کے ولایت فقیہ سے متعلق افکار کو کون مانتا ہے؟ افکار حسینی رح کی روشنی میں غیبت حضرت ولیعصر عج میں ولی فقیہ کا حکم حتمی ہوتا ہے یا تنظیمی؟ کیا کوئی ولائی تنظیم مائنس ولایت فقیہ چل سکتی ہے؟ بہت سے لوگ اس عنوان کو بوقت ضرورت شد و مد سے پیش کرتے ہیں، جبکہ اس موضوع پر وہ افکار حسینی رح کے مخالف ہوتے ہیں۔ پھر وہ کسی مشہور بزرگ کا قصہ سنا دیتے ہیں کہ فلاں نے یوں کہا ووں کہا! فلاں بزرگ کے افکار سے متعلق امام خمینی رح نے نہیں کہا تھا کہ انکا قول مانیں۔ حتی ولی فقیہ کے مطابق انکا نمائندہ بھی جو کہتا ہے، وہ بھی ولی فقیہ کا قول نہ سمجھا جائے۔ بہت واضح فرمایا کہ مجھے جو کہنا ہے خود کہوں گا۔
Pakistan
امام خمینی رح نے کس سے متعلق کیا فرمایا اور کسے کس منصب پر انتصاب کیا، اس پر آپ اپنی معلومات میں اضافہ فرمائیں۔ مفتی جعفر حسین رح و امام خمینی رح کے مابین ربط و تعلق تھا۔ حجت الاسلام سطح کے علماء کو اجازہ دیا اور انہیں نمائندہ کے تابع نہ کیا تھا۔ ثقۃ الاسلام سطح کے چند علماء کو محدود اجازہ و دیگر امور میں علامہ ساجد صاحب سے رجوع کا لکھا تھا۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ علامہ حیدر علی جوادی و یعقوب توسلی صاحبان بھی از طرف امام خمینی رح مذکورہ بالا حجت الاسلام سطح کے ان علماء میں سے دو نام ہیں۔ کیا علامہ عارف حسینی رح سے پہلے کوئی نمائندہ نہ تھا؟ آیت اللہ سید حسن طاھری خرم آبادی رح بھی تھے. ایک شاید شیخ مظفر بہت پہلے تھے۔ نمائندہ ولایت فقیہ تو بعد والے قائد بھی ہوئے تو کیا انہیں مان لیا گیا؟؟ بھئی جب خواص کے بعض ٹولوں کو کسی کی ایسی کی تیسی کرنی ہوتی ہے تو وہ کسی کو خاطر میں نہیَں لاتے، حتی کہ ولی فقیہ و مراجعین کو بھی نہیں۔ کیا شھید مطھری رح کے افکار زندہ ہیں؟ کیا شھید حسینی رح کے افکار زندہ ہیں؟؟
منتخب
ہماری پیشکش