0
Friday 2 Feb 2024 21:32

ہندوستان میں مسلم میراث پر حملے

ہندوستان میں مسلم میراث پر حملے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کہیں پڑھا تھا مسلمان زعماء انگریز کے جانے کے بعد کی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے اندلس سے مسلمانوں کی بے دخلی کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ ان کے لیے یہ سوچنا بہت ضروری تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک ہزار سالہ مسلم اقتدار کے بعد اب ہندو پورے ہندوستان کے اقتدار کے مالک بننے جا رہے تھے۔ اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا تو آہستہ آہستہ مسلمانوں کو ہی ختم کر دیا گیا اور ان کے لیے اندلس کی زمین پر کوئی جائے پناہ نہیں رہنے دی گئی۔ صرف وہی مسلمان رہ گئے، جنہوں نے اندلس سے مراکش ہجرت کر لی۔ مسلمانوں کو اپنی بقاء کا سنجیدہ سوال درپیش تھا، اس پر کچھ زعماء نے اس کا حل ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی صورت میں دیکھا اور اس کے حصول میں لگ گئے اور پاکستان کی صورت میں ایک آزاد ملک کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔

تقسیم ہند کے بعد بچ جانے والے مسلمانوں سے مولانا ابوالکلام آزاد کا خطاب انہی خدشات کا شکار مسلمانوں کو امید دلانے کے لیے ایک شاہکار خطاب تھا۔ کہا "یہ دیکھو۔۔۔ مسجد کے مینار تم سے جھُک کر سوال کرتے ہیں تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گُم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون کی سینچی ہوئی ہے۔" آج ابو الکلام آزادی کے ہندوستان میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ اس وقت کے مسلمان زعماء جس برہمن ذہنیت کی بات کرتے تھے، جو مذہب کے لبادے میں مسلمانوں کے وجود کو قبول نہیں کرتی، آج ہندوستان پر پوری طرح سے مسلط ہوچکی ہے۔ ہر آنے والا دن مسلم شناخت پر ایک نیا المیہ لا رہا ہے۔چند واقعات ملاحظہ ہوں، تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ آج ہند کا مسلمان کس ذہنی اذیت سے دوچار ہے۔

سرکاری حکام نے دہلی شہر کے علاقے مہرولی میں واقع ایک اور تاریخی مسجد کو مسمار کر دیا۔ مہرولی اور 200 ایکڑ پر پھیلے ہوئے قریبی علاقوں کو "ہیریٹیج ایریا" سمجھا جاتا ہے اور یہاں 100 سے زیادہ تاریخی عمارتیں اور دیگر ڈھانچے موجود ہیں، جن میں قطب مینار کمپلیکس، جمالی کمالی مسجد، غیاث الدین بلبن کا مقبرہ اور قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ شامل ہیں۔ مؤرخ سہیل ہاشمی کے مطابق اس مسجد کا تذکرہ 1920ء میں "آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا" (اے ایس آئی) کے ایک اہم سروے میں کیا گیا ہے، جس میں دہلی کی 3000 عمارتوں اور دیگر ڈھانچوں کی فہرست دی گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس فہرست کی جلد تین میں صفحہ 83 اور 84 پر بالترتیب پرانی دہلی کی عیدگاہ اور مسجد اخونجی کا ذکر ہے۔

انڈیا میں بنارس کی ایک عدالت نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس حکم کے مطابق ہندو مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرسکیں گے۔ دو اہم ہندو تنظیمیں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل صرف ایودھیا کی بابری مسجد ہی نہیں بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ بھی ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے دور سلطنت میں ہزاروں مندر توڑے ہیں۔ اگر مسلمانوں نے ایودھیا، بنارس اور متھرا کی تین عبادتگاہیں ہندوؤں کے حوالے نہیں کیں تو وہ تین ہزار عبادت گاہوں کا مطالبہ کریں گی۔

حاجی ملنگ کی درگاہ انڈیا کے شہر ممبئی کے مضافات میں واقع ایک پہاڑی پر ہے۔ مقامی روایت کے مطابق حاجی ملنگ ایک عرب مبلغ تھے، جو تقریباً 700 برس قبل انڈیا آئے تھے۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے ایک سیاسی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے اس درگاہ سے متعلقہ دہائیوں پرانے تنازع کو پھر زندہ کر دیا ہے۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ درگاہ دراصل ہندوؤں کا ایک مندر تھا، جسے "آزاد" کروایا جائے گا۔ کشمیر کی مسلم شناخت پہلے ہی مکمل ختم کرنے کے پلان پر کام شروع ہے۔ انتقال آبادی ہو رہا ہے اور بڑی تعداد میں غیر کشمیریوں کو کشمیر بسایا جا رہا ہے۔ سیٹوں کی تقسیم اس طرح کر دی گئی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو پہلے برابری اور اب برابری سے بھی نیچے لے گئے گئے ہیں۔ یوں ایک بڑے علاقے کو جہاں مسلمان ہی اقتدار میں آتا تھا، اس محکوم بنا دیا گیا ہے۔

تاج محل کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ پہلے اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو اب تاج محل کے تہہ خانوں کے بارے میں کئی طرح کی کہانیاں گھڑ دی گئی ہیں، جیسے یہ بھی کوئی مندر ہو، یعنی ایک ماحول بنایا جا رہا ہے۔ ان سب واقعات کا بغور جائزہ لیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک منظم انداز میں مسلم تہذیب کی علامتوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ ہر وہ چیز مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس سے کسی بھی طرح کی مسلم عہد کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند مساجد کا مسئلہ نہیں ہے، مسلمان ان سے بڑی مساجد بنا لیں گے، اصل مقصد مسلم سوچ و فکر کو ٹھیس پہنچانا ہے کہ وہ برابر کے شہری کی بجائے ایک غلام شہری کی زندگی کو قبول کر لیں۔ جب پوری مسلمان اہل فلسطین کی طرف متوجہ ہیں کہ ہندوستان ایسے اقدامات کر رہا ہے۔

انڈیا سے مولانا طارق شمسی نے لکھا ہے ہم مسلک مسلک کھیلتے رہے۔ مناظرے اور قومی یکجہتی کانفرنس کرتے رہے۔ وقت بچا تو مسلم مینجمنٹ کے اسکولوں میں اپنے اقتدار کی جنگ لڑنے لگے اور پھر اقرباء پروری کے ذریعہ اداروں کا ستیاناس کر ڈالا۔ اوقاف پر ناجائز قبضے کروا دیئے، ان کو غیروں کے ہاتھ کوڑیوں میں بیچ ڈالا۔ بس اب بابری مسجد کے غم سے باہر نکل نہیں پائے تھے کہ مدرسے کو رونے بیٹھ گئے۔ آج سے گیان واپی بھی مندر بن‌ گئی۔ دو چار روز میں مسلم یونیورسٹی کا نمبر ہے۔ سی اے اے کا نوٹیفکیشن بھی کل پرسوں میں آجائے گا۔ پھر متھرا اور پھر اسی طرح منصوبہ بند طریقے سے پائپ لائن میں مدعے لگے ہیں۔ اس کے سد باب کا لائحہ عمل کیا ہے۔ میں ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں کہ آخر وہم کب ہمارے دلوں سے نکلے گا؟ اس پر کھلی بحث کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 1113510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش