1
0
Saturday 26 Nov 2011 21:16

قیام الحسین (ع﴾ فی الکلام الحسین (ع)

قیام الحسین (ع﴾ فی الکلام الحسین (ع)
تحریر:سید اسد عباس تقوی
 
جنگ جمل کے دوران لشکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایک نوجوان نے مخالف لشکر میں طلحہ و زبیر جیسے بزرگوں کو دیکھنے کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ ہم دونوں لشکروں میں سے حق پر کون ہے۔؟ امیر کائنات نے نوجوان کی ذہنی الجھن کا ادراک کرتے ہوئے اسے اس مخمصے سے نکالا۔ آپ نے ایک ہی جملے میں عدل کا وہ اساسی قانون فراہم کیا کہ اگر امت اس پر عمل کرتی تو کبھی افتراق کا شکار نہ ہوتی۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا
اعرف الحق تعرف اھلہ
حق کو پہچانو تم خود بخود اہل حق کو پہچان لو گے۔

امت مسلمہ کا اس نوجوان کی مانند ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ ہم نے حق کو افراد کے ذریعے پہچاننے کی کوشش کی۔ انتہائی معذرت کے ساتھ ہم ہمیشہ سے یہ دیکھتے آئے ہیں کہ فلاں صاحب کا کسی خاص معاملے میں کیا موقف تھا، فلاں صاحب کا ووٹ کس طرف تھا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشرے کی ذہنی استعداد کا یہ عالم تھا جو کہ تاہنوز ہے تو شارع مقدس نے امت کو افتراق سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسا انتظام کیوں نہ کیا کہ امت اپنی سطح فکری کے مطابق ہی حق کو پہچان لیتی۔ ہر مسلمان کا اس بات پر ایمان ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات حق و باطل کی تمیز تھی، یعنی آپ حق کا میزان تھے۔ آپ کا موقف، کسی معاملے میں آپ کی رضایت اس معاملے کے حق ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھی۔ جسے آج مسلمان سنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے جانتے ہیں۔
 
مانا کہ رحلت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اکثر مسائل میں رسول خدا ص کی باتیں معاشرے کو حق کے تعین میں راہنمائی فراہم کرتی تھیں؛ تاہم اس وقت کیا کیا جائے کہ جب نئے مسائل وقوع پذیر ہوں، جن پر معاشرہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کے باوجود راہ حل متعین نہ کر سکے۔ مثلا جنگ جمل کو ہی لے لیجئے، جب دو جلیل قدر اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام المومنین ایک تیسرے صحابی کے مد مقابل آ کھڑے ہوئے، ایسی صورت میں ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کس کو حق پر سمجھا جائے۔ یہی وہ سوال ہے جو اس نوجوان کے ذہن میں پیدا ہوا اور جس کا جواب دیا جانا ازحد ضروری ہے۔

شاید بعض افراد کا یہ نظریہ ہو کہ قرآن کی موجودگی میں اس قسم کے شخصی، معیار حق کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے، قرآن فرقان ہے، یعنی حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہے تو انتہائی ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اگر یہی فرقان کافی تھا تو معاذاللہ رسولوں کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ سیدھا سیدھا کتابیں نازل کی جاتیں اور لوگوں کو کہا جاتا کہ ان کو پڑھ لو اور جیسا سمجھ آئے ویسا عمل کرو۔ قرآن ہی کافی ہوتا تو عبیداللہ ابن زیاد اور یزید اسی قرآن کی آیات کے ذریعے لوگوں کو گمراہ نہ کرتے۔ ظالم و جابر حکمرانوں کی حکومتوں کو دوام بخشنے کے لیے یہ نہ کہا جاتا کہ آیا قرآن میں نہیں آیا کہ امیر کی اطاعت کرو چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ 

تاریخ اسلام گواہ ہے کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم کی خلافت سے صلح امام حسن علیہ السلام تک امت ہر معاملے میں ہمیشہ دو نظریاتی گروہوں میں منقسم رہی۔ تاہم حسین کا قیام ایسا اقدام ہے جس پر مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی امام عالی مقام کی عظمت کے قائل نظر آتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے میں جس ہستی کے اقدام کو بلا تخصیص مسلک و گروہ حق سمجھا گیا، امام حسین علیہ السلام کی ذات والا صفات ہے۔ حسین علیہ السلام نے اپنے اقدام کے ذریعے حق کا وہ معیار قائم کیا، جو رہتی دنیا تک مینارہ نور کی مانند نسل انسانی کی ہدایت کا فریضہ سر انجام دیتا رہے گا۔ آج لفظ حق اور نام حسین علیہ السلام یوں مترادف ہو چکے ہیں کہ ان کے مابین تمیز کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ حسین علیہ السلام نے منافقت کے پردوں میں چھپے ہوئے باطل کو یوں آشکار کیا کہ وہ آج تک کسی
بھی روپ میں حسین علیہ السلام کے روبرو ہونے سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔

اس واقعہ کی عمومی پذیرائی اور تاثیر ہی ہے جس کے سبب طول تاریخ میں مورخین اور مفسرین نے اس واقعہ کے مختلف پہلوئوں کو زیر بحث لایا۔ کسی نے اس واقعہ کی سیاسی توجیہ کی، تو کسی نے اسے عشق خدا کی حکایت گردانا۔ اس مضمون میں میری کوشش ہو گی کہ میں اس تمام ماجرے کو حسین علیہ السلام کے کلام کے آئینہ میں دیکھوں اور جانوں کہ کیسے اور کیونکر حسین علیہ السلام اور ان سے متعلق ہر فرد، شے اور اقدام صرف حق ہی نہیں بلکہ حق کا معیار ٹھہرا۔

نواسہ رسول ص حسن مجتبٰی علیہ السلام کی رحلت کے بعد شیعان علی علیہ السلام اور بنو ہاشم کی سربراہی حسین علیہ السلام کے دوش پر آئی، امام حسین علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور امیر شام کے مابین ہونے والے معاہدہ صلح کو جاری رکھا۔ حالانکہ امام عالی مقام کے خطبات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ امیر شام کی وعدہ خلافیوں، عہد شکنیوں سے سخت نالاں تھے۔ اسی مضمون پر مشتمل امام عالی مقام کے ایک خطبے کا اقتباس جو کہ آپ نے امیر شام کی وفات سے دو سال قبل حج کے موقع پر ارشاد فرمایا پیش قارئین ہے۔ اس خطبہ میں امام عالی مقام نے علماء و زعمائے ملت اسلامیہ کو یہ باور کرایا کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا کیا انجام ہو سکتا ہے۔ امام عالی مقام فرماتے ہیں
فاستخففتم بحق الائمۃ ، فاما حق الضعفاء فضیعتم ، و اما حقکم بزعمکم فطلبتم فلا مالا بذلتموہ ، ولا نفسا خاطرتم بھا للذی خلقہا ولا عشیرہ عادیتموھا فی ذات اللہ۔
(اے گروہ علماء تم نے امت کے حقوق کو نظرانداز کیا، معاشرے کے کمزور لوگوں کے حق کو ضائع کیا اور جسے اپنے زعم میں اپنا حق خیال کرتے تھے طلب کیا اور بیٹھ رہے۔ تم نے( حقوق کے معاملے میں) نہ تو کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور نہ اللہ کی خاطر کسی قوم و قبیلہ کا مقابلہ کیا۔
 
علی الاعلان فسق و فجور کرنے والے عاملین کی حکومت اور اقتدار کی وجہ بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
سلطھم علی ذالک فرارکم من الموت، واعجابکم بالحیاۃ التی ھی مفارقتکم ۔
ان کے (حکومت پر) قبضہ کرنے کی وجہ تمھارا موت سے فرار اور اور اس عارضی زندگی سے محبت ہے۔
امام عالی مقام اسی خطبے میں ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق نہ کہنے کے نتائج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فاسلمتم الضعفاء فی ایدیھم فمن بین مستعبد مقھور و بین مستضعف علی معیشۃ مغلوب
تم نے معاشرے کے کمزور لوگوں کو ان (امویوں) کے سپرد کر دیا، جن میں سے کچھ غلاموں کی مانند کچل دیئے گئے اور کچھ اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔


رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے صرف ساٹھ برس بعد امت کی حالت پر ان الفاظ سے تعجب فرماتے ہیں:
فیا عجبا وما لی اعجب والارض من غاش غشوم و متصدق ظلوم و عامل علی المومنین بھم غیر رحیم
تعجب ہے! اور کیوں نہ تعجب کیا جائے کہ زمین ایک دھوکہ باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے اور اس کے عامل مومنین کے لیے بے رحم ہیں۔
خطبے کے آخر میں امام کے یہ دعائیہ کلمات امام کے اھداف و مقاصد کی ترجمانی کرتے ہیں
اللھم انک تعلم انہ لم یکن ما کان منا تنا فسا فی سلطان ولا التماسا من فصول الخصام ، ولکن لنری المعالم من دینک و نظھرا الاصلاح فی بلادک ، ویامن المظلومون من عبادک ، ویعمل بفرائضک وسننک و احکامک۔
بارالہا تو جانتا ہے کہ ہمارا کوئی بھی اقدام نہ تو حصول اقتدار کے لیے رسہ کشی ہے اور نہ ہی مال کی زیادتی کے لیے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کریں اور تیری زمین پر بھلائی عام کریں، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور تیرے فرائض، سنتوں اور احکام پر عمل ہو۔

فانکم الا تنصرونا تنصفونا قوی الظلمۃ علیکم، وعلموا فی اطفاء نور نبیکم۔
اے لوگو ! اگر آج تم نے ہماری مدد نہ کی اور ہم سے انصاف نہ کیا تو ظالم تم پر غالب آ جائیں گے اور تمھارے نبی کے نور (دین خدا) کو خاموش کرنے میں زیادہ متحرک ہو جائیں گے۔
و حسبنا اللہ، وعلیہ توکلنا والیہ انبنا والیہ المصیر1
ہمارے لیے خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم توکل کرتے ہیں، اسی کی جانب ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔

امیر شام یزید کی بیعت کی غرض سے مدینہ آیا جبکہ صلح امام حسن علیہ السلام کی اہم شق یہ تھی کہ امیر شام اپنے بعد کسی شخص کو اپنی جگہ متعین نہیں کرے گا۔ امیر شام نے بنو ہاشم اور مدینہ کے باقی قبائل کو اکٹھا کیا اور یزید کی صفات بیان کیں۔ امام عالی مقام نے امیر شام کے خطاب کے جواب میں فرمایا
یا معاویہ فلن یودی القائل وان اطنب فی صفۃ الرسولصلی اللی علیہ وآلہ وسلم من جمیع جزء ا وقد فہمت ما لبست بہ الخلف بعد رسول اللہصلی اللی علیہ وآلہ وسلم من ایجاز الصفۃ والتنکب عن استبلاغ النعت۔
اے معاویہ! تعریف کرنے والا چاہے کتنی ہی تعریف کرے، صفات رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک جز بھی بیان نہیں کر سکتا۔ اور تم تو بخوبی جانتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد لوگوں نے آنحضرت کی صفات بیان کرنے میں کتنی کمی کر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثناء میں کیسا ظلم روا رکھا۔
امام عالی مقام اسی خطبے میں آگے چل کر فرماتے ہیں
و فہمت ما ذکرتہ عن یزید من اکتمالہ و سیاستہ لامۃ محمدصلی اللی علیہ وآلہ وسلم ترید ان توھم الناس فی یزید کانک تصف محجوبا او تنعت غائبا اور تخبر عما کان مما احتویتہ بعلم خاص ، وقد دل من نفسہ علی موقع رایہ، فخذ لیزید فیما اخذ فیہ من استقرائہ الکلاب المہارشۃ عند التہارش، و الحمام السبق لا ترابہن ، و القیان ذوات المعازف و ضروب الملاھی تجدہ باصرا ودع عنک ما تحاول ۔2
جو کچھ تم نے یزید کے کمالات اور امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس کی سیاست دانی کا ذکر کیا، اسکو میں سمجھتا ہوں۔ تم چاہتے ہو کہ یزید کے بارے میں لوگوں کو ایسے دھوکے میں رکھو گویا تم ان کے سامنے کسی پوشیدہ شخصیت والے کی صفت بیان کر رہے ہو اور کسی غائب کی تعریف کر رہے ہو یا تم کسی ایسی چیز کا ذکر کر رہے ہو جسے تم نے مخصوص ذرائع سے حاصل کیا ہے، حالانکہ اس (یزید) نے اپنا تعارف (اعمال سے) خود کرا دیا ہے۔ لہذا تم بھی یزید کے لیے وہی چیزیں اختیار کرو، جو اس نے خود اپنے لیے اختیار کی ہیں۔ جیسے لڑائی کے لیے کتوں کا پالنا، کبوتروں کی پرورش، گانے بجانے والیاں اور اسی قسم کے دیگر شغل۔ ہاں یزید ان شغلوں میں کافی مہارت رکھتا ہے ۔ اس (یزید کی بیعت کے) خیال کو اپنے سے دور کرو۔ 
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

حوالہ جات
تحف العقول طبع بیروت ،ص171
الامامة و السیاسة،ج1,ص 186
خبر کا کوڈ : 117448
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
VERY NICE AND AUTHENTIC
منتخب
ہماری پیشکش