0
Wednesday 18 Jul 2012 14:13

علی ابن ابی طالب (ع) اور قرآن

علی ابن ابی طالب (ع) اور قرآن
تحریر: سید حسنین عباس گردیزی 
  
رسول اللہ (ص) کے فرامین کی روشنی میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن اور اہل بیت (ع) ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں اور دونوں مل کر انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے مینارہ نور ہیں۔ ان کے دامن سے تمسک ہی ابدی سعادت و کامیابی کی ضمانت ہے۔ کیونکہ آنحضرت (ص) نے اپنی مشہور حدیث ثقلین میں ارشاد فرما دیا
”انی اوشک ان ادعی فاجیب، وانی تارک فیکم الثقلین: کتاب اللہ، وعترتی، کتاب اللہ حبل ممدود من السماءالی الارض، وعترتی اھل بیتی، وان اللطیف الخبیر اخبرنی انہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظرونی بما تخلفونی فِیھِما “(۱)
یعنی: ”مجھے جلدی دعوت دی جانے والی ہے اور میں اس پر لبیک کہنے والا ہوں، میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت، کتاب الٰہی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے۔ میری عترت، میرے اہل بیت ہیں، اور لطیف و خبیر اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) تک پہنچ جائیں۔ پس تم دیکھنا میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرو گے۔“
 
علی علیہ السلام اہل بیت (ع) کی اہم شخصیت ہیں، اس حدیث میں انہیں اور قرآن کو لازم وملزوم، اور علی (ع) کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔ اِسی مطلب کو پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی ایک اور حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے:
”علی مع القرآن، والقرآن مع علی، لا یفترقان حتی یردا علی الحوض“ (۲)
یعنی: ”علی (ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (ع) کے ساتھ ہیں، یہ دونوں آپس میں جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر پہنچ جائیں“
اس حدیث میں بھی علی (ع) اور قرآن کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔ یعنی علی (ع) اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ ساتھ قیامت تک رہے گا۔
 
ہم دیکھتے ہیں کہ نزول قرآن کی ابتداء سے لے کر انتہا تک علی (ع) رسول اللہ (ص) کے ساتھ رہے ہیں، جب پہلی وحی نازل ہوئی تو علی (ع) آنحضرت کے ہمراہ غار حراء میں موجود تھے۔ اس بارے میں جناب امیر (ع) خطبہ قاصعہ میں فرماتے ہیں۔
”ولقد کان یجاور فی کل سنة بحراء فاراہ ولا یراہ غیری، ولم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول اللہ وخدیجة وانا ثالثھما، اری نور الوحی والرسالة، اشم ریح النبوة، ولقد سمعت رنہ الشیطان حین نزل الوحی علیہ فقلت: یا رسول اللہ، ما ھذہ الرنّہ؟ فقال ھذا الشیطان آیس من عبادتہ، انّک تسمع ما اسمع، وتری ما اری الا انک لست بنبی ولکنک لَوَزیر واّنک لعلی خیر“ (۳)
یعنی: ”آپ (ص) ہر سال (کوہ) حرا میں کچھ عرصہ قیام فرماتے اور وہاں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا۔ اس وقت رسول اللہ (ص) اور (ام المومنین) خدیجہ کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا، البتہ ان میں تیسرا میں تھا۔ میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا۔ جب آپ (ص) پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سُنی، جس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ (ص) یہ آواز کیسی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے کہ جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہوگیا ہے۔ (اے علی!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو، فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو، بلکہ وزیر اور جانشین ہو اور یقیناً بھلائی کی راہ پر ہو۔“
 
اس عبارت میں علی (ع) نے اپنے چند فضائل کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ان میں ایک وحی کے نور کو دیکھنا اور نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کو سننا ہے۔ نزول وحی کے وقت علی (ع) کا آنحضرت کے پاس ہونا ایسا مسئلہ ہے جسے ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے
”واما حدیث مجاورتہ بحراء فمشہور۔۔۔۔۔۔۔۔حتی جاءت السنة التی اکرمہ اللہ فیھا بالرسالة، فجاور فی حراء شھر رمضان ومعہ اھلہ خدیجة وعلی بن ابی طالب وخادم لھم، فجاءہ جبرئیل بالرسالة“(۴)
یعنی: ”آپ کے غار حراء میں جانے کی بات بڑی مشہور ہے۔۔۔۔۔یہانتک کہ وہ سال آن پہنچا، جس میں اللہ تعالٰی نے آپ (ص) کو رسالت پر مبعوث فرمایا، چنانچہ آپ (ص) ماہ رمضان میں حراء میں تشریف لے گئے آپ کے ہمراہ آپ کی زوجہ خدیجہ(س)، علی ابن ابی طالب (ع) اور ان کے خادم تھے۔ پس جبرائیل (ع) (پیغام) رسالت لے کر آئے۔“ 

امیرالمومنین علی (ع) نزول وحی کے 32 سالہ دور میں چند مواقع کے علاوہ باقی تمام اوقات میں آنحضرت (ص) کے ہمراہ رہے۔ صرف شب ہجرت اور وہ بھی خود حضور (ص) کے حکم پر، اور جنگ تبوک اور یمن میں ماموریت کے دوران آپ سے الگ رہے۔ اس لئے وہ نزول قرآن اور اس کی کیفیات، شان نزول، ناسخ و منسوخ، عام و خاص، محکم و متشابہ، ترتیب نزولی اور اعراب کے بارے میں سب سے زیادہ عالم ہیں۔
اس بارے میں وہ خود فرماتے ہیں۔ سلیم بن قیس روایت کرتے ہیں کہ میں امیرالمومنین (ع) سے سُنا کہ انہوں نے فرمایا:
”ما نزلت آیة علی رسول اللہ ص الا اقرانیھا واملاھا علی فاکتبھا بخطی، وعَلَّمَنِی تاویلھا وتفسیرھا، وناسخھاومنسوخھا ومحکمھا ومتشابھھا ودعا اللہ لی ان یعلمنی فھمھاو حفظھا، فما نسیت آیة من کتاب اللہ ولا علمااملاہ علی فکتبتہ منذدعا لی مادعا وما ترک شیئا علمہ اللہ من حلال ولا حرام ولا امر ولا نہی کان اولا یکون من طاعة او معصیة الا علمنیہ وحفظتہ۔۔۔۔۔۔۔“ (۵)
یعنی: ”رسول اللہ (ص) پر جو بھی آیت نازل ہوتی، وہ آپ میرے سامنے پڑھتے اور مجھے لکھواتے، پس میں اپنے ہاتھوں سے اسے لکھ لیتا، آنحضرت نے مجھے آیات کی تاویل اور تفسیر سکھائی، ان میں ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہہ کے بارے میں بتایا اور اللہ تعالٰی سے میرے لیے دعا فرمائی کہ مجھے آیات کا علم و فہم عطا فرمائے اور ان کو میرے ذہن میں محفوظ رکھے، پس آپکی اس دعا کے بعد کتاب الٰہی سے نہ میں کوئی آیت بھولا اور نہ کوئی علمی مطلب فراموش کیا، جو آپ نے مجھے لکھوایا تھا۔ آنحضرت (ص) کو اللہ تعالٰی نے جو کچھ حلال، حرام، امرونہی، اور جو اطاعت و نافرمانی ہو چکی ہے یا ہونا باقی ہے، کے بارے میں سکھایا تھا، اس سب کی آپ نے مجھے تعلیم دی اور اس میں سے میں نے کسی چیز کو نہیں چھوڑا، میں نے ان سب کو حفظ کر لیا۔“
 
ایک اور حدیث میں ابو طفیل نے بیان کیا ہے کہ علی (ع) نے فرمایا:
”سلونی عن کتاب اللہ فانہ لیس من آیة الا وقد عرفت بلیل نزلت ام نھار ام فی سھل ام فی جبل“ (۶)
یعنی: ”مجھ سے قرآن کے بارے میں پوچھو، کیونکر قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں کہ وہ رات کو نازل ہوئی یا دن کو، میدان میں نازل ہوئی یا پہاڑ پر“
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
”واللہ ما من حرف نزل علی محمد الا انی اعرف فیمن انزل وفی ای یوم وفی ای موضع“ (۷)
یعنی: ”خدا کی قسم! محمد (ص) پر کوئی ایسا حرف (آیت) نازل نہیں ہوا، مگر میں اُسے جانتا ہوں کہ کس کے بارے میں نازل ہوا، کس دن اور کس موقعہ پر نازل ہوا۔“ 

قرآن مجید کی آیات کے بارے میں مذکورہ معلومات کے علاوہ قرآن میں موجود علوم و معارف اور حقائق الہیہ کے بھی آپ سب سے بڑے عالم تھے اور پہلے حافظ قرآن بھی تھے۔ ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
”اتفق الکل علی ان علیاً (علیہ السلام) کان یحفظ القرآن علی عھد رسول اللہ ص ولم یکن غیرہ یحفظہ“ (۸ )
یعنی: ”اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ (ص) کے دور میں ہی علی (ع) قرآن کے حافظ تھے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا حافظ نہ تھا۔“
قرآنی علوم و حقائق کے متعلق جناب امیر علیہ السلام کے علم بارے میں صحابی رسول (ص) ابن مسعود بیان کرتے ہیں:
”نزل القرآن علی سبعة احرف لہ ظھرو بطن، وعند علی (علیہالسلام) علم القرآن ظاہرہ وباطنہ“ (۹)
یعنی: ”قرآن مجید سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، اس کا ظاہر ہے اور باطن ہے اور علی (ع) کے پاس علمِ قرآن ہے، اس کے ظاہر کا بھی علم ہے اور باطن کا بھی“ 

حافظ قندوزی حنفی نے نقل کیا ہے کہ:
”قال علی (ع) لو شئت لاوقرت من تفسیر الفاتحة سبعین بعیرا“ (10
یعنی: ”علی (ع) نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں سورہ فاتحہ کی اتنی تفسیر بیان کروں (کہ اگر لکھی جائے تو) ستر اونٹوں کا بوجھ بن جائے۔“
شیعہ و نی دونوں کی روایات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت علی (ع) قرآن کی تاویل کے مسئلے پر جہاد کریں گے، س طرح پیغمبر اکرم (ص نے قرآن کی تنزیل پر جہاد کیا تھا۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ (ص سے سُنا کہ آپ نے فرمایا:
”ان منکم من یقاتل علی تاویل القرآن کم قاتلت علی تنزیلہ فقال ابو بکر: انا یا رسول اللہ ؟ قال ”لا“قال عمر: انا ؟ قال رسول اللہ ”لا ولکنہ خاصف النعل“ وکان اعطی علیا نعلہ یخصفھا “ (۱۱)
یعنی: ”تم میں سے ایک شخص تاویل قرآن پر جنگ کرے گا،جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی ہے۔ حضرت ابو بکر نے پوچھا: یا رسول اللہ (ص)! کیا وہ میں ہوں؟ آپ نے فرمایا نہیں، حضرت عمر نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا وہ میں ہوں؟ آپ نے جواب دیا: نہیں بلکہ وہ جوتا گانٹھنے والا ہے۔ “اور علی (ع) اس وقت اپنے جوتے کو پیوند لگا رہے تھے۔“ 

رسول خدا (ص) کی رحلت کے بعد حضرت علی (ع) نے قرآن کی جمع آوری کا کام انجام دیا اور آپ سب سے پہلے قرآن کے جمع کرنے والے ہیں۔ ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
”اتفق الکل علی۔۔۔۔۔ انہ اول من جمعہ “ (۲۱)
یعنی: ”سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب سے پہلے قرآن حضرت علی (ع) نے جمع کیا“
زرقانی کہتے ہیں:
”واذن لا یضیرنا فی ھذاالبحث ان یقال: ان علیا اول من جمع القرآن بعد رسول اللہ“ (۳۱)
یعنی: ”اس بحث میں اس بات کے ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ رسول اللہ (ص) کے بعد سب سے پہلے قرآن حضرت علی (ع) نے جمع کیا ہے۔“ 

علی (ع) وہ واحد ذات ہیں، جن کو رسول اکرم (ص) نے قرآن کے بارے میں وصیت فرمائی، اگرچہ قرآن امت کے حوالے ہوگیا تھا اور پورا قرآن امت کے پاس موجود تھا، مگر اس کا محمدی (ص) نسخہ بیت مصطفی (ص) میں موجود تھا، اس نسخہ کے وارث علی ابن ابیطالب (ع) تھے۔ اس بنا پر رسالت ماب نے قرآن ان کے حوالے کیا اور اُسے جمع کرنے کی وصیت فرمائی۔ چنانچہ ابن شہر آشوب، ابو رافع سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے مرض الموت میں فرمایا:
”یاعلی ھذا کتاب اللہ خذہ الیک“ فجمعہ علی (علیہ السلام) فی ثوب، فمضٰی الی منزلہ، فلما قبض النبی، جلس علی (ع) فالفہ کما انزلہ اللہ وکان بہ عالما“ (۴۱)
یعنی: ”اے علی یہ کتاب خدا ہے، اسے اپنے پاس لے جاﺅ“ چنانچہ حضرت علی (ع) نے قرآن کو ایک کپڑے میں جمع کیا اور اپنے گھر لے گئے، رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد آپ نے اس طرح قرآن کی تالیف فرمائی جیسے اللہ تعالٰی نے نازل فرمایا تھا اور آپ اس کو بخوبی جانتے تھے۔“
 
اس موضوع کے بارے میں اور بھی کافی روایات ہیں، لیکن مطلب کو ثابت کرنے کے لئے صرف دو اور روایات نقل کی جاتی ہیں۔
مناقب ابن شہر آشوب میں ہے کہ ابو العلا العطار اور خطیب خوارزم الموفق نے اپنی کتابوں میں علی بن رباح کی سند سے نقل کیا ہے کہ:
”ان النبی (ص) امر علیا بتالیف القرآن، فالفہ وکتبہ“ (۵۱)
یعنی: ”نبی کریم (ص) نے علی (ع) کو قرآن جمع کرنے کا حکم دیا، چنانچہ انہوں نے اسے جمع کیا اور لکھا“
علی بن ابراہیم قمی کی تفسیر میں ہے کہ ابو بکر حضرمی نے امام جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ہے:
”ان رسول اللہ (ص) قال لعلی: یا علی القرآن خلف فراشی فی الصحف والحریر والقراطیس فخذوہ واجمعوہ ولا تضیعوہ کما ضیعت الیھود التوراة“ (۶۱)
یعنی: ”رسول خدا (ص) نے علی (ع) سے فرمایا: یاعلی! قرآن میری خواب گاہ کے پیچھے ابریشم اور کاغذوں میں ہے، اس کو اپنے پاس لے جائیں اور جمع کر لیجئے اور ضائع نہ ہونے دیجئے۔ جس طرح یہودیوں نے تورات کو ضائع کر دیا۔“ 

حضرت علی (ع) نے رسول خدا (ص) کی وصیت اور فرمان پر پورے طور پر عمل کیا اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے، جب تک کہ قرآن کو جمع نہ کر لیا۔ مناقب میں ابن شہر آشوب اپنی سند سے سدی کے ذریعے عبد خیر سے نقل کرتے ہیں کہ علی (ع) نے فرمایا:
”لما قبض رسول اللہ (ص) اقسمت۔ اوحلفت۔ ان لا اضع ردائی عن ظھری حتی اجمع ما بین اللوحین، فما وضعت ردای حتی جمعت القرآن “ (۷۱)
یعنی: ”جب رسول اللہ (ص) کا وصال ہوا تو میں نے قسم کھائی کہ میں اپنی عبا زیب تن نہیں کروں گا جب تک اسے جمع نہ کر لوں، جو تختیوں کے درمیان ہے، اور میں نے عبا نہیں ڈالی یہانتک کہ قرآن کو جمع کر لیا۔“ 

علامہ سیوطی محمد بن سیرین سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا:
”لما مات رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ ) وسلم الیت ان لا اخذ علی ردائی الالصلوة الجمعہ حتی اجمع القرآن فجمعہ“ (۸۱)
یعنی: ”جب رسول خدا (ص) نے رحلت فرمائی تو میں نے قسم کھائی کہ نماز جمعہ کے علاوہ اپنی عبا نہیں ڈالوں گا (یعنی گھر سے باہر نہ نکلوں) جب تک قرآن کو جمع نہ کر لوں، چنانچہ انہوں نے قرآن کو جمع فرمایا۔“
حضرت علی (ع) نے جو قرآن مجید جمع کیا تھا، اس کی انفرادیت اور خصوصیات یہ تھیں۔ عکرمہ کہتے ہیں:
”لو اجتمعت الانس والجن علی ان یولفوہ ھذا التالیف ما استطاعوا“ (۹۱)
یعنی: ”اگر جن و انس اس بات پر جمع ہو جائیں کہ اس طرح سے قرآن کو جمع و ترتیب دیں، تو وہ ایسا نہیں کرسکتے“
ابن جزی کلبی کہتے ہیں:
”لو وجد مصحفہ علیہ السلام لکان فیہ علم کثیر“ (۰۲)
یعنی: ”اگر علی (ع) کا مصحف میسر آجاتا تو ایک علم کثیر ہاتھ آجاتا۔“ 
ابن سیرین کہتے ہیں:
”لو اصبت ذالک الکتاب لکان فیہ العلم“(۱۲)
یعنی: ”اگر یہ کتاب میسر آجاتی تو اس سے علم مل جاتا“ 

شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں لکھتے ہیں:
”ان علیا قدم فی مصحفہ المنسوخ علی الناسخ و کتب فیہ تاویل بعض الایات وتفسیر ھا بالتفصیل“
یعنی: ”علی (ع) نے اپنے مصحف میں پہلے منسوخ آیات پھر ناسخ آیات لکھیں، اس میں بعض آیات کی تاویل اور ان کی تفصیل کے ساتھ تفسیر بیان کی۔“
فیض کاشانی نے اپنی کتاب وافی میں کہا ہے:
علی (ع) نے قرآن کی تفسیر، شان نزول اور آیات خود رسول خدا (ص) کی املاء سے لکھی تھیں۔ چنانچہ خود حضرت علی (ع) نے فرمایا:
”ولقد جِئتُھم بالکتاب مشتملاً علی التنزیل والتاویل“ (۲۲)
یعنی: ”میں ان کے پاس قرآن لایا تھا جو تنزیل اور تاویل دونوں پر مشتمل ہے۔“ 

ان نصوص سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ صرف تنزیل پر منحصر نہ تھا، جیسا کہ باقی قرآن ہیں۔ یعنی وہ صرف قرآن کی آیات ہی پر مشتمل نہ تھا، بلکہ اس میں تفسیر اور تاویل بھی تھی۔
معاصر محقق شیخ ہادی معرفت نے امیر المومنین علی (ع) کے مصحف کے اوصاف کچھ یوں بیان کئے ہیں۔
اول:۔ یہ قرآن آیات کی ترتیب نزولی کے لحاظ سے مرتب کیا گیا تھا، جو آیات پہلے اتریں انہیں پہلے اور جو بعد میں اتریں انہیں بعد میں درج کیا گیا۔
دوم:۔ اس میں تمام آیات بغیر کسی کمی بیشی اور تبدیلی کے درج تھیں۔
سوم:۔ یہ قرآن حرف بہ حرف رسول اللہ (ص) کی قرات کے مطابق تھا۔
چہارم:۔ یہ قرآن کی آیات کے متعلق تشریحات اور توضیحات پر مشتمل تھا اور آیات کے نزول کی مناسبتوں، شان نزول، وہ جگہ جہاں آیت نازل ہوئی، وہ وقت جب آیت نازل ہوئی، اور وہ افراد جن کے حق میں اور جن کی مذمت میں نازل ہوئی، یہ سب تفصیلات اس میں مذکورہ تھیں۔ (البتہ واضح ہے کہ یہ سب اس کے حاشیے پر تھا)
پنجم:۔ یہ قرآن آیات کے عمومی اور کلی پہلوﺅں کو بھی بیان کرتا تھا یعنی: آیات کے وہ پہلو جو کسی خاص زمان، مکان اور افراد سے مختص نہیں تھے۔ یہ مطالب سورج اور چاند کی طرح جاری و ساری رہتے ہیں اور یہی مطلب ہے تاویل کا، جس کو آپ نے اپنے کلام میں ذکر کیا ہے:
”ولقد جئتھم بالکتاب مشتملا علی التاویل والتنزیل“
یعنی: ”میں ان کے پاس ایسی کتاب لایا (قرآن) جو تاویل اور تنزیل پر مشتمل تھی۔“
تنزیل سے مراد وہ وقتی مناسبت اور سبب ہے جو آیت کے نزول کا باعث بنا اور تاویل وہ کلی اور عمومی مطلب ہے۔ جو تمام زمانوں میں جاری وساری ہے۔ 

علی (ع) کا جمع کیا ہوا قرآن ان تمام حقائق اور نکات پر مشتمل تھا جو انہوں نے رسول اکرم (ص) سے حاصل کئے تھے۔ اس میں نہ تو کوئی چیز انہیں بھولی تھی اور نہ کوئی چیز ان پر مشتبہ تھی۔ (۳۲
موقع کی مناسبت سے ہم امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) کا وہ قول دوبارہ بیان کرتے ہیں، جو تفسیر البرھان اور العیاشی میں نقل ہوا ہے۔ انہوں نے فرمایا:
رسول اللہ (ص) پر جو آیت اترتی، آپ (ص) اُسے میرے سامنے پڑھتے اور مجھے لکھواتے، چنانچہ میں اپنے ہاتھوں سے اسے لکھ لیتا، آنحضرت نے مجھے آیات کی تاویل اور تفسیر سمجھائی، ان میں ناسخ ومنسوخ اور محکم و متشابہہ کے بارے میں مجھے بتایا اور اللہ سبحانہ سے میرے لئے دعا فرمائی کہ ”وہ مجھے آیت کا علم و فہم عطا فرمائے اور انہیں میرے ذہن میں محفوظ رکھے۔“ پس آپ کی دعا کے بعد کتاب الٰہی سے نہ میں کوئی آیت بھولا اور نہ کوئی علمی مطلب فراموش کیا، جو آپ نے مجھے لکھوایا تھا۔ (۴۲) 

حوالہ جات
مسند احمد بن حنبل: ج۲ ص۷۱ اور مناقب ابن المغازی الشافعی:ص۵۳۲ ح۱۸۲
حافظ قندوزی: ینابیع المودة، ص۰۹ اور کشف الغمہ باب مناقب، ج۱ ص۹۹۱
نہج البلاغہ ،ترجمہ مفتی جعفر حسین،خطبہ ۰۹۱ ص۵۴۵
شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید: ج۳۱ ص۸۰۲
تفسیر البرھان: ج۱ص۶۱ اور تفسیر العیاشی: ج۱ص۴۱
ینابیع المودة: ص۵۶
تفسیر العیاشی ج۱ ص۴۱ (اصبغ بن نباتة کی روایت میں سے جملات )
شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید: ج۱ ص۷۲
ینابیع المودة: ص۰۷ ینابع المودة: ص۵۶
تاریخ دمشق حالات زندگی امام علی -، ج۳ ص۸۲۱ حدیث نمبر ۰۷۱۱
شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید: ج۱ ص۷۶
مناھل العرفان: ج۱ ص۷۴۲
المناقب ابن شہر آشوب: ج۲ ص۱۴، بحارالانوار: ج۲۹ ص۱۵
المناقب ابن شہر آشوب: ج۲ ص۱۴، بحارالانوار: ج۲۹ ص۲۵
تفسیر علی بن ابراہیم قمی: ج۲ ص۱۵۴، بحار الانوار: ج۲۹ ص۸۴
المناقب ابن شہر آشوب: ج۲ ص۳۸۱
الاتقان فی علوم القرآن: ج۱ ص۳۸۱
الاتقان فی علوم القرآن: ج۱ ص۹۵
الستھیل لعلوم التنزیل: ج۱،ص۴
الطبقات الکبری: ج۲ ص۸۸۳
آلاءالرحمن: ج۱ ص۷۵
التمھید فی علوم القرآن: ج۱ ص۹۲۲
تفسیر البرھان: ج۱ ص۶۱ اور تفسیر العیاشی: ج۱ ص۴۱
خبر کا کوڈ : 180093
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش