0
Tuesday 14 Aug 2012 01:06

14 اگست، مجموعی ملکی صورتحال اور ذمہ داریاں

14 اگست، مجموعی ملکی صورتحال اور ذمہ داریاں
 تحریر: علی ناصر الحسینی

آج جب پاکستانی قوم اپنے وطن کا 65واں یوم آزادی منا رہی ہے تو ملک عظیم چیلنجز سے دوچار ہے اور پوری قوم اَن گنت مسائل جن کا حل ہونا دور دور تک دکھائی نہیں دیتا، میں اُلجھی دکھائی دیتی ہے۔ گویا زخم بے شمار ہیں، جہاں ہاتھ لگاؤ لہو رستا ہے۔ پاکستان کے وجود پر آنے والے ان بے شمار اور اَن گنت زخموں کا ذمہ دار کون ہے؟ آیا صرف سیاستدان اس کے ذمہ دار ہیں یا جرنیل بھی حصہ دار ہیں، آیا علماء اس کے ذمہ دار ہیں یا عوام بھی کوئی کردار رکھتے ہیں، آیا اسٹیبشلمنٹ نے یہ زخم لگائے ہیں یا بیورو کریسی نے اسے گھائل کیا ہے، طالب علموں نے اس ملک کو زخمی کیا ہے یا دہشت گردوں نے، فوج پر اس کی ذمہ داری آتی ہے یا پولیس پر۔
 
آیا صوبہ پنجاب اس پر ہاتھ صاف کرتا آیا ہے یا سندھ نے اسکی بربادی میں گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ آیا رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے یا خیبر پختونخوا کے باعث یہ دن دیکھنے کو ملے ہیں؟ آیا موجودہ نااہل حکمران پاکستان کے وجود پر یہ زخم لگانے کا سبب بنے ہیں، یا سابقہ حکمرانوں کی بدولت اس حالت سے دوچار ہیں۔ آیا اس کی ذمہ داری جمہوری قوتیں ہیں یا پھر فوجی طالع آزما، عالمی قوتوں نے اسے لہو لہو کیا ہے یا اس کے ہمسائے میں موجود دشمن ممالک اس کے وجود کو مٹانے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ 

سبب جو بھی ہو، وجہ کوئی بھی ہو، ذمہ دار جسے بھی ٹھہرایا جائے، یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ آج ہمارا پاکستان لہو لہو ہے، قائداعظم کے پاکستان کے وجود کے زخم زخم سے دہائی آ رہی ہے، علامہ اقبال (رہ) کا تصور جیسے بکھر رہا ہے، لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کا ثمر جیسے ضائع ہونے کو ہے، ہزاروں دختران ملت کی عزتوں کی پائمالی کا غم سہہ کر آزاد ہونے والا وطن آج بربادی اور عدم استحکام کا شکار نظر آتا ہے۔
 
ذرا دقت نظر کریں، غور تو کریں کہ ان 65 برسوں میں ہم نے اسے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ عملاً آج ہر سو دہائی ہے، ہر طرف کہرام ہے، ہر دن نوحہ و ماتم ہے، آج جس طرف بھی نگاہ اُٹھائیں آہ و بکا ہے۔ قتل و غارت گری ہے۔ عزتون کی پائمالی ہے، لوٹ مار کا بازار گرم ہے، 65 سال کے بعد ہمارے اپنے پیارے وطن میں، جسے ہم نے لاکھوں قربانیاں دیکر حاصل کیا تھا، خوف کے سائے ہیں، کرپشن کے لامتناہی سلسلے ہیں، ایسی کرپشن جس نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر وار کیا ہے، قومی اداروں کو کوڑیوں کے مول لاکھڑا کیا ہے، سیاسی خلفشار اور انتشار ہے۔
 
کرسی کی محبت نے سیاسی جماعتوں اور راہنماؤں کو غیروں کی محتاجی کا عادی بنا دیا ہے، اقتدار یعنی لوٹ مار، حکومت یعنی قومی خزانہ خالی اور ذاتی اکاؤنٹس میں اضافہ کا حساب ہی نہیں۔ احتساب یعنی ذاتی انتقام اور سیاسی دشمنوں اور مخالفوں کو لگام دینے کا نام، عدل یعنی من پسند کیسز میں ذاتی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے آزادیء عدل کی ڈگڈگی بجانا اور عوامی حمایت کے حصول کے لیے بعض کیسز پر ازخود نوٹس لیکر اپنی ساکھ کو بہتر بنانا، بیوروکریسی کا بھی وہی وطیرہ ہے، وہی چال اور وہی ڈھال ہے، جو انگریز حکمرانوں نے اس خطے کے پسے ہوئے عوام پر جاتے ہوئے طرز حکومت کی صورت میں مسلط کی۔
 
اسلامی ملک میں اسلامی انقلاب کے خواہاں علماء کرام کو دیکھیں تو ہر ایک نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے، مسجدیں بظاہر تو خانہ خدا ہیں مگر پاکستان میں یہ نفرت، تفریق، تخریب اور مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا مرکز بنی دکھائی دیتی ہیں، اوپر سے یہاں سے بلند ہونے والے خطبوں کی گونج میں آپ کو کفر کے ایوانوں میں اسلام کا پرچم لگانے کے بلند و بانگ دعوے سنائی دینگے، معلوم نہیں کونسا اسلام اس لئے کہ اسی گلی میں دو چار فٹ کے فاصلے پر ایک اور خطیب بھی اسی قسم کا خطبہ ارشاد فرما رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔ نفرت کی یہ دیواریں اس قدر بلند ہوچکی ہیں کہ آئے روز مساجد بھی اس کا شکار ہو کر نمازیوں کے خون سے لہو لہان ہوتی ہیں اور وہ بھی۔۔۔ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کے ہاتھوں،۔۔۔ آخر یہ کونسا اسلام ہے، جس نے مساجد کو ویران کرنے کی ٹھان لی ہے۔؟
 
اگر ہم مجموعی طور پر صورتحال کی تصویر بنانا چاہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر طرف افراتفری، بے چینی، عدم اطمینان، عدم تحفظ، استحصال، اقرباء پروری، کرپشن، چور بازاری ، لوٹ مار، ملاوٹ، دہشت گردی، تخریب کاری، خلفشار، سیاسی عدم استحکام، عدالتی آمریت، صحافت بے لگام، داخلی انتشار، خارجی سازشیں اور ملک توڑنے کے دیگر تمام عوامل اپنے عروج اور اوج پر ہیں۔ ہر طرف سازشوں کے جال بنے جاچکے ہیں۔ 

اس سارے کھیل تماشے میں اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ غریب استحصال زدہ عوام اور ان کا پاکستان ہے۔ طبقاتی تقسیم نے پاکستانی معاشرے کو چاٹ کر رکھ دیا ہے۔ غریبوں کے استحصال میں کسی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، سیاسی جماعتوں اور قائدین سے لیکر اقتدار کے مزے لینے والے جرنیلوں تک، سب نے ہاتھ صاف کئے ہیں۔ کوئی بھی عقل مند شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ قائداعظم نے ایسے پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی اور علامہ اقبال کا خواب آج کا یہ پاکستان تھا۔ 

مایوسیوں کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُمید کی کرنیں نوجوان اور طالب علم ہیں، جو مختلف میدانوں میں عالمی سطح پر ریکارڈ قائم کر رہے ہیں، وہ تعلیمی میدان ہو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ، کئی ایک میدانوں میں نوجوان طلباء نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ مستقبل کے یہ معمار، اعلٰی دماغ جب اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے تو یقیناً بہتری آئے گی اور ملک خوشحال ہوگا۔
14 اگست کے تاریخ ساز دن کی مناسبت سے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ یہ عہد کریں کہ ان کے خوابوں کو بیچنے والوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے شکست دے کر دم لیں گے، تاکہ پاکستان جیت سکے۔
خبر کا کوڈ : 187003
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش