0
Monday 31 May 2010 12:53

پاکستان کے خلاف یکطرفہ فوجی کارروائی کا ناپاک منصوبہ؟

پاکستان کے خلاف یکطرفہ فوجی کارروائی کا ناپاک منصوبہ؟
امریکی حکومت کے اندرونی حلقوں تک رسائی کی شہرت رکھنے والے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں سینئر فوجی حکام کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ ٹائمز سکوائر میں دہشت گردی کی ناکام کوشش کے بعد پاکستان کے بارے میں نئے عملی امکانات پر غور کر رہی ہے اور اس نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ اگر مستقبل میں امریکی سرزمین پر عسکریت پسندی کی ایسی کسی کارروائی کی سازش ڈانڈے پاکستان سے ملتے ہوئے پائے گئے تو امریکہ انتہائی ناگزیر صورتحال میں پاکستان میں دہشت گردوں کے عسکری ٹھکانوں کو یکطرفہ طور پر خود نشانہ بنائے گا۔جس کے لئے فضائی اور میزائل حملوں کے ساتھ ساتھ خصوصی حالات میں پاک افغان سرحد پر متعین دستوں کو بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ 
سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس پس منظر میں امریکی افواج نے کمپیوٹر پر ایسی مشقیں بھی کر لی ہیں،جن سے آئندہ پیدا ہونے والی کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔ امریکی میڈیا پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور امریکہ میں اس کے خلاف کام کرنے والی لابیوں کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے اس قسم کی خبریں اکثر اچھالتا رہتا ہے،جن سے ان لاکھوں تارکین وطن کے ذہن بھی مسموم ہوتے ہیں جو امریکہ کی ترقی و خوشحالی کے لئے دن رات انتھک جدوجہد کر رہے ہیں اور پاکستان میں دہشتگردی کو تقویت دینے والی سرگرمیوں کو بھی مدد ملتی ہے۔اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنا اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے،اتنا کچھ خود امریکی و اتحادی افواج سے بھی نہیں ہو سکا،اور اس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اب تک اس میں نہ صرف اپنے ایک ہزار سے زائد فوجی جوانوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکا ہے بلکہ اس کی معیشت کو ہر سال قریباً 35 ارب ڈالر کا خطیر نقصان بھی ہو رہا ہے اور دہشت گرد اب صرف قبائلی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے پشاور سے لے کراچی تک ہر شہر کو اپنی ناپاک سرگرمیوں کا ہدف بھی بنا لیا ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنے ترقیاتی بجٹ کا بیشتر حصہ بھی سکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود اسے جنگی مصارف پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی ہو رہی ہے نہ پاکستان کی جانب سے جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی کے مطالبات پر ہی سنجیدگی سے توجہ دی جا رہی ہے۔بلکہ الٹا اس کا بازو مروڑنے کے لئے اسے نت نئے انداز میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
 تاریخی اعتبار سے پاکستان پر یکطرفہ حملوں کی پلاننگ کوئی نئی بات نہیں۔نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد بھی پاکستانی سرحد کے قریب امریکہ نے جنگی مشقیں کرنے کا ایک پروگرام بنایا تھا جس کی حکومت پاکستان کو باضابطہ اطلاع بھی کر دی گئی تھی جس پر اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر محمود علی درانی نے واشنگٹن کا ہنگامی دورہ کر کے امریکی حکام کو قائل کیا تھا کہ اس قسم کی جنگی مشقیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاون ثابت ہونے کی بجائے شدت پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا موجب بنیں گی۔جس پر یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا تھا۔ حیرت ہے کہ اب جبکہ صدر اوباما خود بش عہد کے پرانے جنگی نظریہ سے دستبردار ہو کر اپنی معرکہ آرائی کو صرف القاعدہ تک محدود رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں تو ان کی انتظامیہ کے بعض افراد اور فوجی حکام متروک قرار دیئے جانے والے ایک پرانے منصوبے کا احیاء کیوں کر رہے ہیں جبکہ یہ حقیقت بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکہ کی جانب سے قبائلی علاقوں میں کئے جانے والے ڈرون حملے کسی اعتبار سے سود مند ثابت نہیں ہوئے کیونکہ یہ القاعدہ یا طالبان کی شدت پسند قیادت کا صفایا کرنے میں بھی قطعاً کامیاب نہیں ہو پائے اور دوسری طرف ان حملوں سے بوڑھوں،عورتوں اور بچوں تک کی معصوم جانوں کا اتنے بڑے پیمانے پر اتلاف بھی ہو رہا ہے۔جس سے امریکہ کے خلاف نفرتوں کی نئی فصل کی آبیاری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو رہا یہ بھی یاد رکھا جانا چاہئے کہ اس خونیں کھیل میں اب صرف امریکہ ہی واحد کھلاڑی نہیں بلکہ اس سے پرانے بدلے چکانے اور اپنے علاقائی و عالمی مفادات کے حصول کی جدوجہد کرنے والے کئی دوسرے ملک بھی در پردہ اس میدان میں کود چکے ہیں کیونکہ القاعدہ اور طالبان کے کارپردازان خواہ کتنے ہی بہادر اور حوصلہ مند کیوں نہ ہوں جب تک انہیں کسی منظم ریاستی ادارے سے بھرپور مالی تکنیکی اور اسلحی امداد حاصل نہ ہو وہ اپنی جنگ کسی صورت میں جاری نہیں رکھ سکتے۔
 امریکی حکام یقینا اس سے بے خبر نہیں ہوں گے لیکن ان کی جانب سے اس ساری صورتحال کو نظر انداز کر کے دہشت گردی کے ہر واقعہ کا فوری الزام پاکستان کے سر تھوپنا اور پھر اس کی آڑ لے کر اس کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع کر دینا دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے لئے کسی طرح مفید نہیں کیونکہ نام نہاد دہشتگردی کے اثرات صرف پاکستان یا افغانستان تک ہی محدود نہیں بلکہ امریکہ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک تک بھی پھیلے ہوئے ہیں اور فیصل شہزاد ایسے امریکی شہری کا انتقامی جذبات سے مغلوب ہو کر دہشت گردی کی منصوبہ سازی پر اتر آنا اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ دہشت گردی کو کسی خاص ملک،مذہب یا نسل سے منسوب کرنا ہرگز درست نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ایک امریکی شہری کبھی اس طرف مائل نہ ہوتا۔اس صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور اس کی فوج جو ہر قسم کی مالی،جانی اور معاشی قربانی دے کر دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں اس میں اس کا بھرپور ساتھ دیا جائے اور تھوڑے تھوڑ ے وقفے کے بعد کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر اس کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ بند کیا جائے،کیونکہ اس سے دہشتگردی کے خلاف جنگ آزما قوتوں کے راستے میں مزید مشکلات پیدا کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔
 "روزنامہ جنگ"

خبر کا کوڈ : 27152
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش