10
Saturday 19 Sep 2020 16:49

امریکا اور چین کی لڑائی کا میدان پاکستان

امریکا اور چین کی لڑائی کا میدان پاکستان
تحریر: محمد سلمان مہدی

پاکستان کی موجودہ صورتحال ایک سیاق و سباق رکھتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی و علاقائی صف بندی کے تناظر میں پاکستان کے داخلی حالات کے پس پردہ عوامل کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ امریکا اور چین ایک غیر اعلانیہ جنگ میں مصروف ہیں۔ اعلانیہ جو ہے وہ محض تجارتی جنگ ہے۔ غیر اعلانیہ جو ہے وہ ہر شعبے اور خاص طور پر جیو اسٹرٹیجک، جیو پولیٹیکل کنٹرول کی جنگ ہے۔ ایک عام پاکستانی بھی اپنے ملک میں جاری مصنوعی بحران سے آگاہ ہے، لیکن اس کے پس منظر کو تو خواص کی اکثریت بھی بیان کرنے سے گھبراتی نظر آتی ہے۔ پاکستان کی صورتحال پر تو ہم پچھلی تحریروں میں چند اہم نکات بیان کرچکے ہیں۔ اب اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے چین کے حوالے سے چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

چین مشرقی ایشیائی ملک ہے اور پورے مشرقی ایشیاء میں سیاسی تناؤ فوجی کشیدگی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ صورتحال اس انتہاء پر اچانک یا یکایک نہیں پہنچی۔ امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں اور ماہرین کو پہلے سے معلوم تھا کہ چین دنیا کی بڑی اقتصادی طاقت بننے والا ہے۔ 16 دسمبر 2010ء کو اکنامسٹ جریدے نے اس موضوع پر لکھا: ڈیٹنگ گیم: وین ول چائنا اوورٹیک امریکا۔ پیشن گوئی یہ تھی کہ سال 2019ء میں ایسا ہوگا۔ آئی ایم ایف نے سال 2014ء میں پرچیزنگ پاور پیرٹی کے معیار پر چائنا کو امریکا سے بڑی اقتصادی طاقت مان لیا اور کہا کہ پانچ سال قبل ہی چائنا اقتصادی طاقت بن چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام یا امریکی کارپوریٹوکریسی کو شاید یہ منظور نہ تھا۔ سال 2016ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہوئے اور 2017ء سے ان کی صدارت میں یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں شدت پیدا کی۔

لیکن چین کی قیادت مستقبل کے سہانے سپنے دیکھ رہی تھی۔ سال2017ء ماہ اکتوبر میں موجودہ چینی صدر نے حکمران کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے 19ویں قومی کانگریس سے خطاب کیا۔ وہاں انہوں نے تین مرحلوں میں چین کو دنیا میں ایک قدآور ملک یعنی قائدانہ کردار کا حامل ملک بنانے پر مبنی اپنا چینی خواب بیان کیا۔ چین نے اسے ویژن 2050ء کا عنوان دیا۔ پہلا مرحلہ یہ تھا کہ سال 2020ء میں چین کو ایک حد تک خوشحال ملک بنانا تھا۔ دوسرا مرحلہ یہ کہ سال 2035ء تک چین کو ایک جدید سوشلسٹ ملک میں تبدیل کر دینا ہے اور سال 2050ء میں عالمی سیاست میں قائدانہ کردار کا حامل ایک قدآور طاقتور ملک چین کا خواب ہے۔ چین یہ خواب نہ بھی دیکھتا، تب بھی مشرقی ایشیاء میں یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا نے چین کے خلاف اپنا ایک بلاک بہت پہلے سے بنا رکھا ہے۔ یہاں اس کے بعض اتحادی ممالک پر مشتمل امریکی بلاک میں جاپان، جنوبی کوریا سمیت بعض دیگر ممالک کی اہمیت زیادہ رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ کہ امریکا تائیوان کے ساتھ بھی براہ راست سفارتی تعلقات رکھتا ہے جبکہ چین تائیوان کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ گو کہ چین کے خلاف بھارت بھی امریکی اتحادی ملک ہی ہے لیکن اب مشرقی ایشیاء میں بحر الکاہل تک کی سمندری چوکیداری پر امریکا نے باضابطہ طور پر بھارت اور آسٹریلیا دونوں ہی کو شامل کر لیا ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین ایک طویل عرصے سے کہا کرتے ہیں کہ امریکا نے بھارت اور جاپان کے ذریعے چین کا دو طرف سے محاصرہ کر رکھا ہے۔ البتہ اب بیک وقت کئی محاذوں کو کھولا گیا ہے۔ ہانگ کانگ میں چین مخالف احتجاج کی سرپرستی اور تائیوان کے ساتھ مل کر چین کے خلاف امریکی طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ پانچ اگست 2019ء کو بھارت کی مودی سرکار نے متنازعہ کشمیر کے حوالے سے جو نیا قانون اور انتظامی حیثیت کا حکم نامہ جاری کیا تھا، اس میں ایک علاقہ لداخ بھی تھا اور لداخ کو چین اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔ اس متنازعہ علاقہ پر کنٹرول کے لیے تاحال بھارت اور چین ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہیں۔ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے راجیہ سبھا کو بتایا ہے کہ لداخ کے 38 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر چین کا قبضہ ہے اور بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ارونا چل پردیش کو چین بھارت کا حصہ تسلیم نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ ارونا چل پردیش بھارت کی ریاست یعنی ایک صوبہ ہے۔ امریکا اور بھارت تبت کے ایشو پر بھی چین کو بلیک میل کرتے آئے ہیں۔ امریکی مغربی بلاک نے شمالی کوریا کا ایشو بھی چین پر دباؤ کے لیے استعمال کیا۔

یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ مشرقی ایشیاء ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں بھی امریکا اور چین کے درمیان تنازعات پوری دنیا کے نمائندے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے ایشو پر اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں امریکا اور چین ایک دوسرے کے خلاف صف آراء نظر آئے۔ یاد رہے کہ چین کے حوالے سے جو پیشن گوئیاں تھیں، اس میں سال 2020ء بہت اہم سال تھا۔ کیونکہ اس سال ہر حوالے سے چین دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن جاتا یعنی امریکا کی نمبر ایک حیثیت کو تنزلی دے کر نمبر دو بناکر چین ایک نمبر اقتصادی طاقت بن جاتا اور شاید اسی کو سال 2017ء میں چینی صدر نے ویژن 2050ء کا پہلا مرحلہ قرار دیا تھا۔ یعنی سال 2020ء میں چین ایک مناسب حد تک خوشحال ملک بن جائے، لیکن دسمبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان میں امریکی فوجی ایتھلیٹس آئے اور چین میں کورونا وائرس پھیلتا چلا گیا۔ چین کی حکومت کے مطابق پہلے کیس کی تصدیق تو جنوری 2020ء میں ہوئی، لیکن اس کی ابتداء ووہان شہر سے ہی ہوئی۔

چین نے کورونا وائرس کو امریکا کا بائیولوجیکل حملہ قرار دیا۔ امریکا نے دنیا بھر میں چین کا میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ امریکی سرمایہ دارانہ بلاک نے اس ایشو کو چین کے خلاف تجارتی جنگ میں اسلحے کے طور پر استعمال کیا۔ تجارتی جنگ میں دیگر نوعیت کی کارروائیوں کے ذریعے چین کے ساتھ خود امریکی کمپنیوں اور دنیا کے دیگر ممالک کی تجارت کو مشکل بنا دیا۔ اس تناظر میں یہ بات بہت واضح ہے کہ مشرقی ایشیاء میں جنم لینے والا یہ بحران محدود نہیں ہے۔ یہ عالمی سطح پراثر انداز بحران ہے۔ چین نے اس مرتبہ خاموشی یا محدود ردعمل کی حکمت عملی میں ترمیم کی ہے۔ اب اس نے محدود جوابی کارروائی کی حدود میں وسعت کر دی ہے۔ جولائی 2020ء سے ستمبر 2020ء تک امریکا اور چین یکے بعد دیگرے جنوبی چینی سمندر کی حدود میں آبدوزوں کی فوجی مشقیں کرچکے ہیں۔ جمعہ 18 ستمبر 2020ء کو تائیوان کے ساتھ سینیئر امریکی سفارتکاروں کی فوجی اور سیاسی نوعیت کی اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے ردعمل میں آبنائے ہرمز میں 18 چینی فائٹر جیٹ اور بمبار طیاروں نے طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس مرتبہ چین بھی بیک وقت امریکا، بھارت اور امریکی اتحادی تائیوان، ان تین محاذوں پر زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر عمل کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سیاست کی تاریخ سے آگاہ ہر باشعور جانتا ہے کہ امریکی مغربی بلاک کا شکنجہ اب تک کامیاب وار کرتا آیا ہے۔ ان کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت سوویت یونین کا سقوط ہے اور اب چین سوویت یونین کی طرح عالمی سیاست کا دوسرا پول بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ یقیناً امریکا کی قیادت میں مغربی سرمایہ دارانہ بلاک دنیا کو یونی پولر سمجھتا ہے۔ کہنے کی حد تک یورپ امریکی حکومت سے اختلافات رکھتا ہے، لیکن کلیدی معاملات میں امریکا ہی بلاشرکت غیرے مغربی بلاک کا قائد ہے۔ امریکی مغربی سرمایہ دارانہ بلاک سے یہ جنگ اتنی آسان نہیں ہے۔ ان مغربی ملکوں نے اس خطے سمیت دنیا کے سارے اہم علاقوں پر سامراجی قبضے کرکے ان پر حکومت کی ہے۔ وہ یہاں کے حالات سے بھی آگاہ ہیں۔ کمزوریوں اور خامیوں کو بھی جانتے ہیں اور عوام کو تقسیم کرنے کے فن میں ان کی مہارت پر کسی کو شک نہیں ہے۔

چین اکیلا اس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسے روس اور بعض دیگر ممالک کی مدد، حمایت اور تعاون کی ضرورت ہے۔ چینی قیادت کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ وہ اسی سمت سفر کر رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا کو اقتصادی راہداری کے ذریعے ایک دوسرے سے ملانے کا جو منصوبہ شروع کیا ہے، اس سے چین سارے اہم ممالک سے اپنے آپ کو جوڑ رہا ہے۔ امریکی سرمایہ دارانہ بلاک اچھی طرح جانتا ہے کہ اس بیلٹ روڈ منصوبے بشمول سی پیک اقتصادی راہداری کی کامیاب تکمیل کے بعد کا منظر نامہ کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے اور پوری دنیا شاہد ہے کہ چین نے جس اقتصادی خوشحالی کا خواب دیکھا تھا، سال 2020ء میں وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ یہ ہے امریکی بلاک کا کامیاب وار۔ سانپ بھی مار دیا، لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ اب چین جوابی وار کر رہا ہے۔ کم سے کم یہ حقیقت تو ماننے کے سوا چارہ نہیں کہ چین اپنے خطے میں امریکا اور اس کے سہولت کاروں کو سبق سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بھارت کے ساتھ چین نے جو کیا ہے یا تائیوان کو فوجی طیاروں کی پرواز سے جو خاموش پیغام بھیجا ہے، یہ اسی حقیقت کا اظہار ہے۔

یہ طویل اننگ کا جیو اسٹرٹیجک، جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک کھیل ہے اور اس کھیل کو پاکستان اسٹیڈیم پر بھی کھیلا جا رہا ہے اور کھیلا جاتا رہے گا۔ چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا، جو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں بیک وقت مذہبی و سیکولر حلقوں کی مہم اور کشیدہ صورتحال کو بھی بعض تجزیہ نگار سی پیک کے خلاف امریکی ردعمل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگر سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کو بہانہ بنا کر امریکی بلاک پاکستان کی سرزمین سے دو مخصوص مذہبی فرقوں کو مقدس مجاہدین بناکر پراکسی وار لڑ سکتا ہے تو اسی مخصوص تربیت یافتہ فنڈڈ منظور نظر طبقے کے جانشینوں کو اثاثے کے طور پر آج کیوں استعمال نہیں کرسکتا!؟ وہ کل بھی استعمال ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ جنرل ضیاء کی قیادت میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے امریکی بلاک کی خوشنودی کے لیے پاکستان کی سرزمین کو اس گندے کھیل کا میدان بنایا تھا اور اس کے بعد چالیس برس پوری پاکستانی قوم نے اس کا خمیازہ بھگتا ہے۔

آج تک پاکستان اس کا نقصان اٹھا رہا ہے، ایک اور مرتبہ مسلکی تعصبات و منافرت کو قابل مذمت اسلام دشمن مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مولوی حضرات تھوڑا ہوش میں آکر حقیقت کا سامنا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ملا حکومت آنے کی راہ میں رکاوٹ دوسرا کوئی مسلک نہیں ہے۔ سارے مسالک کے علماء اور دینی جماعتوں نے پرویز مشرف دور حکومت میں متفقہ طور پر اس حکومت کے حدود آرڈیننس کی مخالفت کی تھی۔ یہ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے کزن چوہدری شجاعت حسین اور ان کی قاف لیگ پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار میں شریک تھے۔ ان سب نے مل کر بنیاد اسلام کی ایسی کی تیسی کی تھی۔ تب سارے مسالک کے جید علماء کی متفقہ رائے کو مسترد کرکے ان سنی حکمرانوں نے اپنی من مانی کی تھی اور یہی مفتی منیب الرحمان اپریل 2018ء میں تحریک لبیک پاکستان کے قائدین سے لاتعلقی کا اظہار کرچکے تھے۔ ان کا بیان تھا کہ تحریک لبیک کے عزائم انتہائی خطرناک تھے، ان کا مقصد ختم نبوت نہیں بلکہ یہ کسی اور کے کہنے پر کام کر رہے تھے۔

پرویز مشرف دور میں حدود آرڈیننس ہی کے ایشو پر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کا اختلاف ہوا تھا۔ فضل الرحمان صاحب نے اس ایشو پر اپنی مسلکی سیاست بچا لی اور سارے مسالک کی متفقہ مخالفت کے باوجود قانون بننے دیا۔ بعد ازاں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت نے حسبہ بل نافذ کیا تو اس کی مخالفت بھی مرکزی حکومت اور ان کے ہم مسلکوں ہی نے کی تھی۔ وہ مفتی عابد مبارک جو کل تک دہشت گردوں کے خلاف کھل کر بولا کرتے تھے، وہ بھی اب یو ٹرن لے کر انہی دہشت گردوں کی پریس ریلیز پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ یہ ایک سازش ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اداروں میں موجود کالی بھیڑوں نے اہل بیت نبوۃﷺ سے عقیدت و محبت رکھنے والے علماء کو بلیک میل کیا ہے، دباؤ ڈالا ہے اور انہیں اس پر مجبور کیا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اداروں میں موجود ایک مخصوص مسلک کے افراد کو سعودی سفیر کی جانب سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

معاملہ کچھ بھی ہو، سارے مفتیان یاد رکھیں کہ موجودہ فتنہ و فساد پھیلانے والوں کو تو پورے دین اسلام ہی سے بغض ہے، فرقہ و مسلک تو بعد کی بات ہے۔ ابھی جس کسی نے چند مولوی حضرات کا جو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیا ہے، یہ اسلام و مسلمین سے مخلص نہیں، ہمدرد نہیں۔ موجودہ فتنہ و فساد ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ یہ تو جلد یا تاخیر سے ختم ہو ہی جائے گا، لیکن اسلام و پاکستان کے دشمن کے ہاتھوں آپ استعمال ہوچکے ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ استعمال ہونے سے باز آجائیں۔ اگر کسی پر کوئی دباء ہے تو وہ اسے کھل کر بیان کرے۔ ایک نظر پچھلے چالیس برسوں پر ڈال لیں۔ انصاف سے کام لیں اور اگلے چالیس برسوں کو ماضی کے چالیس برسوں کی طرح کی تباہی و ذلت و خواری کے سال بنانے سے گریز کریں۔
خبر کا کوڈ : 887194
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش