0
Sunday 8 Jul 2012 22:57

ملی یکجہتی کونسل کی قیادت اہل درد اور اہل تقویٰ ہے، جن کا مرکز فکر وحدت اسلامی ہے، سلطان احمد علی

ملی یکجہتی کونسل کی قیادت اہل درد اور اہل تقویٰ ہے، جن کا مرکز فکر وحدت اسلامی ہے، سلطان احمد علی
صاحبزادہ پیر سلطان احمد علی کا تعلق حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ سے ہے۔ آپ حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی دسویں پشت سے ہیں۔ سلطان احمد علی اصلاحی جماعت اور عالمی تنظیم العارفین کے سیکرٹری جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ مراۃ العارفین انٹرنیشنل کے چیف ایڈیٹر اور ملی یکجہتی کونسل کے نائب صدر کے طور پر اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے صاحبزادہ پیر سلطان احمد علی صاحب کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا ہے، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: بنیادی تعارف سے آگاہ کریں، تعلیم کہاں سے حاصل کی اور پھر عملی زندگی میں کیسے آنا ہوا۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی: بسم اللہ الرحمان الرحیم بہت شکریہ، آپ نے مجھے گفتگو کا موقع دیا۔ اسلام ٹائمز کی دینی و ملی حوالے سے خدمات لائق تحسین ہیں۔ ملی سطح پر ایک سیاسی ومذہبی شعور اجاگر کرنے کے حوالے سے اسلام ٹائمز بہت خوبصورت کاوشیں انجام دے رہا ہے۔ میں آپ کو اور آپ کے دیگر تمام رفقاء کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ اتنا بڑا کام اس دور میں کر رہے ہیں کہ جب ہر آدمی اپنی مادیت کے پیچھے ہے۔ آپ ایک نوبل کاز کے لئے کام کر رہے ہیں، آپ یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔

میرا بنیادی تعلق تو حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ سے ہے، اور میں ان کی دسویں پشت میں ہوں۔ تیرھویں صدی عیسو ی اور نگزیب عالمگیر کا دور حکومت آپ کا زمانہ بنتا ہے، تب سے ہمارا خاندان اشاعت توحید و سنت اور اشاعت دین کے لئے اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ میں نے درس نظامی ضلع بھکر سے کیا، اے لیول اور او لیول میں نے لاہور سے کیا اور ابھی بھی میرا تعلیمی سلسلہ الحمد اللہ جاری ہے۔ میر ا زیادہ وقت دین کے حوالے سے اور اس سلسلے کے حوالے سے اپنی Humble Capacity میں جو خدمات پیش کرسکتے ہیں، اپنی عاجزانہ کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اصلاحی جماعت اور عالمی تنظیم العارفین کا میں سیکرٹری جنرل ہوں، مراۃ العارفین انٹرنیشنل کا چیف ایڈیٹر ہوں اور ملی یکجہتی کونسل میں مجھے بطور نائب صدر خدمت یکجہتی دین ادا کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی ترویج کے سلسلے میں اولیائے کرام کابہت بڑا کردار ہے اور اب مشائخ عظام کا بھی اس حوالے سے اہم کرادر ہے، اس بارے میں فرمائیں۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی: برصغیر پاک و ہند اور دنیا کے بہت سے خطوں میں اسلام کی ترویج میں صوفیاء کا ایک بہت بڑا کردار رہا ہے، جس طریقے سے ہم دیکھتے ہیں کہ ایشیاء کوچک اور ترکی میں حضرت مولانا رومی کی بہت بڑی خدمات ہیں، اسی طرح آپ وسطی ایشیا کی طرف چلے جاتے ہیں یہاں بھی سلسلہ قادریہ اور سلسلہ نقشبندیہ کی بہت بڑی خدمات ہیں۔ کشمیر میں اگر آپ دیکھیں تو وہاں ترویج اسلام میں حضرت امیر کیبر شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ نے اہم کردار اد کیا، اسی طرح فار ایسٹ میں جس میں انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن میں کوئی فاتح نہیں گیا، کوئی جنگ نہیں ہوئی، وہ تمام ممالک صوفیائے کرام کی محنت سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں صوفیائے کرام کا اہم کردار رہا ہے اور ان صوفیاء میں حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کا ایک نمایاں کردار ہے۔ تمام صوفیائے کرام میں دین سے محبت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ اس سلسلے میں حضرت سلطان باہو کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔ جب اکبر ہندوستان کا بادشاہ بنا، تو اس نے یہاں اکبری گمراہی کو فروغ دیا، اور اس نے یہاں شراکت ادیان کے تصور کو فروغ دیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس نے آپسی رشتوں میں منسلک کیا۔ قرآن اور ودھ کو ملا کر پڑھنے کی اس نے ایک ترتیب قائم کی۔ تو وہی اثرات اس کی نسلوں میں نظر آتے ہیں۔ یعنی جہانگیر میں شاہجہان میں اس کے بیٹے مراد میں، شجاع میں اور دارا شکوہ میں۔ اب دارا شکوہ قادری سلسلے سے تعلق رکھتا تھا، حضرت سلطان باہو بھی قادری سلسلے سے تھے۔ اور اورنگریب سخت قسم کے مولویانہ ذہنیت و نظریات کا حامل تھا اور دارہ شکوہ گو کہ حضرت سلطان باہو کا ہم مشرب تھا لیکن آپ نے دارہ شکوہ کا ساتھ دینے کی بجائے سیاسی سطح پر اورنگزیب عالمگیر کا ساتھ دیا اور اپنی فارسی تصانیف میں اس بات کا تذکرہ بار بار کیا کہ اورنگزیب ایک اچھا حکمران ہو سکتا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے مسلک و مشرب سے بالاتر ہو کر ہندوستان میں مجموعی سطح پر اسلام کی صورتحال کو دیکھ کر آپ نے کہا کہ دارہ شکوہ میں یہ خرابی ہے کہ وہ شراکت ادیان کا قائل ہے اور توحید پہ Compromise کرتا ہے اور صوفیائے کرام کا خاصہ ہی یہ ہے کہ انہوں نے توحید پر کمپرومائز نہیں کیا۔ شراکت ادیان نہیں ہونے دیا اور توحید، قرآن و سنت کو اسی طرح الگ سے جو اس کا امتیاز و انفرادیت کو برقرار رکھا۔ تو یہ کردار ہے صوفیائے کرام کا جو اس خطے میں قائم رہا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے صوفیائے کرام کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے اصلاحی جماعت کی طرح ڈالی، اس جماعت کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔؟

صاحبزادہ سلطان احمد علی: اصلاحی جماعت کی بنیاد 1987ء میں میرے والد گرامی اور حضرت سلطان باہو کی نویں پشت حضرت سلطان اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے ڈالی اور اس کے اغراض و مقاصد بھی یہی تھے کہ قرآن و سنت کا احیاء کیا جائے اور جو لوگ خانقاہ کے ساتھ منسلک ہیں، یہ جو ایک فرسودیت ہے، خانقاہیت ہے، اس سے لوگوں کو نکال کر ایک عملی سطح پہ انہیں گامزن کیا جائے اور انہیں میدان عمل میں لایا جائے۔ اس کے مقاصد یہ تھے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں عوام الناس کو پیغام ہدایت پہنچایا جائے، اس سلسلے میں آپ نے مختلف تبلیغی وفود تشکیل دئیے اور ان کو مختلف مساجد میں مارکیٹس میں مختلف مقامات پہ لوگوں کو تیار کرکے بھیجا۔

اس سے قبل خانقاہی نظام کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، لیکن انیسویں اور بیسویں صدی میں آکے خانقاہ کا کردار جو ہے وہ انگریز کی غلامی شروع ہونے کے بعد محدود ہوا ہے، بیسویں صدی میں ایک انقلابی تحریک خانقاہی اور گوشہ نشینی سے اٹھ کر میدان عمل میں آئی، پھر 1999ء میں عالمی تنظیم العارفین کے نام سے ایک جماعت قائم کی گئی، تاکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو اخلاقی، سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر اکٹھا کیا جائے، ان کے باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے اور مسلمانوں کو دور حاضر کے چیلنجز کے لئے تیار کیا جائے۔ اسکے لئے بنیادی طور پر تین امور ہمارے پیش نظر تھے، سب سے پہلے اتحاد امت مسلمہ، دوسرا استحکام اسلامی جمہوریہ پاکستان، یہاں اسلامی Inverted commas میں آتا ہے اور تیسری چیز فلاح و امن معاشرہ انسانی ہے۔

اسلام ٹائمز: امت کی وہ کیا کمزوریاں ہیں، جن کی بناء پر آج مسلمان تمام دنیا میں رسواء ہیں۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی: امت کی ایک طرف کمزوری و بے بسی ہے اور ایک طرف امت پر ہونے والے مظالم ہیں، میں یہ بات پورے وثوق سے ساتھ کر رہا ہوں اور میں اس پر Facts and figures پیش کرسکتا ہوں کہ دنیا میں جتنی بھی Communities ہیں ان میں جس کا سب سے بڑا Genocide ہوا ہے قتل عام ہوا ہے وہ مسلمان ہیں، پاکستان کے اندر دیکھ لیں، یہاں باضابطہ جنگ نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود چالیس بیالیس ہزار لوگوں کی جان چلی گئی ہے۔ جن ممالک میں باضابطہ جنگ ہو رہی ہے افغانستان اور عراق میں بے شمار اموات ہوئی ہیں، افغانستان میں گزشتہ دس سالوں میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کی اموات ہوئی ہیں، عراق میں مسلمانوں کے قتل عام کا صحیح اندازہ تب ہوگا جب سامراجی طاقتیں وہاں سے انخلاء کریں گی۔

عراق میں بھی کم از کم سات سے آٹھ لاکھ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا ہے۔ کشمیر میں ہونے والی ہلاکتیں گزشتہ عرصے سے زیادہ ہیں، جو تقریباً سوا لاکھ تک ہیں، اسی طرح فلسطین کے اندر درجنوں لاکھ مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور اسٹالن کے دور حکومت میں روس کے اندر پچیس لاکھ مسلمانوں کو
شہید کیا گیا، ایک ہی آپریشن میں چیچنیا کے اندر ایک لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا، جس میں داؤد مرحوم بھی شہید ہوئے۔ ان تمام مظالم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ ان مرنے والوں کا گناہ کیا ہے، آپ ان کو کیوں مار رہے ہیں۔ اسی طرح تازہ ترین مظالم میں اراکان برما میں دیکھ لیں، بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اسی طرح انڈیا کے اندر گجرات اور دیگر صوبوں میں دیکھیں۔

یہ تمام صورتحال ملت کی مظلومیت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن اتنا بڑا ظلم کرکے جب انہیں یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اسلام کی مدافعتی قوت بیدار ہوگی اور وہ ظالم کے ہاتھ کو روکے گی تو انہوں نے تین طعنے ہمارے لئے تیار کر لئے کہ یہ بنیاد پرست، شدت پسند اور دہشتگرد ہیں۔ Fundamentalist, Extremist and Terrorist ہیں۔ یہ تین طعنے دیئے اور انہوں نے ہمیں کہا کہ آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ مظلوم ہیں۔ وہ خود مظلوم بنے ہمیں ظالم بنایا اور جب ہم کہنے لگے کہ ہم مظلوم ہیں تو انہوں نے ہماری زبان پر یہ تین تالے لگا دیئے اور کہا کہ پہلے تم یہ تین تالے کھولو پھر تم سے بات ہوگی۔ یہ جو ملت کا اتنا بڑا قتل عام ہوا، اس کی سب سے بڑی وجہ ملت کی صفوں کے اندر پایا جانے والا انتشار ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں بھی ایک دوسرے کو سنی اور شیعہ ہونے کی بنیاد پر قتل کرتے ہیں۔

اس سے بڑی کیا بدنصیبی ہوسکتی ہے کہ آپ اس بنیاد پر واجب القتل ہیں کہ آپ میری بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں آکے ہمیں یہ تقاضے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس اتحاد و یگانگت کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت پیدا کیا تھا۔ ایک حبشی غلام کو عرب کے بڑے بڑے خانوادوں کے سردار جب مخاطب کرتے تو کہتے کہ البلال ھو سیدنا کہ وہ بلال جو ہمارا آقا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ہمیں ہر سطح پر طبقات میں منقسم کر دیا گیا ہے، اگر آپ مذہبی سطح پر دیکھیں تو شیعہ، سنی، وہابی اور ان میں بہت سے مسالک ہیں، جو دوسرے مسالک کو کہتے ہیں کہ یہ اسلام کے اچھوت ہیں۔ اب مجھے یہ نہیں سمجھ آتی کہ یہ اچھوت کی اصطلاح ہم نے اسلام میں کہاں سے ایجاد کی اور کیوں ہم نے ایک دوسرے کو اتنا قابل نفرت بنا دیا۔ دوسرا ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے طبقات ہیں، جن میں ہم قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کمتر گردانتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑی جہالت ہے۔ کسی قوم کو نسلی تفاخر کی بنیاد پر برتری حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کو حضرت آدم سے پیدا کیا ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک بات فرمائی اور یہ ایک بہت حساس بات ہے اور اس بارے میں علماء کرام کو سوچنا چاہیے، خاص طور میرے جیسے کم علم لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کرنا چاہیے کہ حضور (ص) نے خطبہ حجۃ الوداع میں مسئلہ توحید کو قومیت کے مسئلے کے ساتھ منسلک کرکے بیان کیا۔

آپ (ص) نے فرمایا کہ بے شک تمہارا اللہ ایک ہے، بے شک تمہیں ایک ہی باپ کی جد سے پیدا کیا، اس لئے تم میں سے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں، فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر حاصل ہوگی۔ ہمارے ہاں پٹھانوں، اعوانوں، چوہدریوں، راجپوتوں، مہروں، ملکوں وغیرہ کو بڑی عزت دی جاتی ہے کہ یہ بڑی اقوام ہیں اور کچھ قوموں کو بڑی ذلت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس معاشرتی نظام سے کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس میں ستم یہ ہے کہ بذات خود اگر میں اپنی بات کروں تو میں کئی نسلی تفاخر میں اپنے ساتھ منسلک کرسکتا ہوں، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو اپنے آپ کو بڑی قوم کہتے ہیں اور تفاخر کرتے ہیں یہ اعلان بغاوت انہیں کرنا چاہیے، تاکہ چھوٹی اقوام کے اندر بولنے اور بات کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے گفتگو میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کی بات کی، اس سلسلے میں ملی یکجہتی کونسل جو کہ مسلمانوں کے درمیان مشترکات و متفقات پر کام کر رہی ہے، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟

صاحبزادہ سلطان احمد علی: میرے خیال میں ہر خزاں کے بعد بہار ہے، اور ہر تاریکی کے بعد اجالا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اسلامیان پاکستان میں یہ شعور ڈالا ہے اور یہ اللہ تعالٰی کی توفیق سے ہوا ہے کہ آج سے بہت سال قبل ملی یکجہتی کونسل وجود میں آئی اور اتنے بڑے عظیم کام جسے ہم لوگ ناممکن سمجھتے تھے اس کام کو اللہ تعالٰی نے ان علماء اور ان اکابرین سے انجام دلوایا اور نفرتوں کا ایک سیلاب جو پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا، علماء اور ان اکابر کے مل بیٹھنے سے اللہ تعالٰی نے وہ طوفان روک دیا، وہ جو آفت ہماری بد اتحادی، اتنشار اور لڑائی کی وجہ سے آ رہی تھی، ہمارے مل بیٹھنے سے اللہ تعالٰی نے وہ آفت ہمارے سر سے اٹھالی ہے۔

ملی یکجہتی کونسل بڑی منظم بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے، اس سے پہلے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ملی یکجہتی کونسل ایک ارتقائی مرحلے سے گزری ہے، اب کام کو آگے بڑھاتے ہوئے کمیشنز بنائے گئے ہیں۔ مجھے ان کمیشنز سے بہت توقعات ہیں اور کونسل کی قیادت میں اہل درد اور اہل تقویٰ لوگ موجود ہیں، جن کا مقصد اور مرکز فکر وحدت اسلامی ہے اور بہت سی قوتیں ہیں جو اس اتحاد کو نہیں دیکھ سکتیں، جو اس اتحاد کو اچھا نہیں سمجھتیں۔ میں ان قوتوں کو کہنا چاہوں گا کہ کونسل کے مقاصد کسی کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم فقط یہ چاہتے ہیں کہ اپنی صفوں کے اندر موجود انتشار کو دور کر لیں، اپنی صف بندی کرلیں، اگر امام ہاتھ کھول کر نماز پڑھ رہا ہے تو ہاتھ کھولنا کسی کے خلاف جنگ کرنا نہیں ہے۔

اگر ہاتھ کھول کر نماز ادا کرنے والا امام ہے تو اس کے مقتدی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے والے اور رفع یدین کرنے والے بھی ہونے چاہییں۔ تو اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے عوامی سطح پر یہ ویژن جائے گا اور میں وہ وقت دیکھ رہا ہوں جب یہ فاصلے ہمارے درمیان سے مٹ جائیں گے، چونکہ اکابر مل کر بیٹھ گئے ہیں تو عوام کو مل کر بیٹھنا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: ہم دیکھتے ہیں کہ مشائخ عظام نے بھی ملی یکجہتی کونسل کو رونق بخشی ہے، تو اس حوالے سے آپ اپنے Followers اور مریدین کا کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟

صاحبزادہ سلطان احمد علی: مشائخ پاکستان کا بہت بڑا طبقہ ہیں اور اصلاحی جماعت اور عالمی تنظیم العارفین کا سلوگن بھی مشائخ کے حوالے سے ہے کہ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری۔ اب وقت ہے کہ خانقاہی لوگ بھی باہر آئیں اور یہ بڑی امید افزا بات ہے کہ مشائخ بھی ملی یکجہتی کونسل میں شامل ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ مشائخ کے اپنے مسائل بھی کونسل میں آنے سے حل ہوسکتے ہیں۔ میں تمام سلاسل کے Followers کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ ہمیں امت میں اتحاد کے لئے کوشاں رہنا چاہیے، کیونکہ شیخ عبدالقادر جیلانی (رہ) نے بغداد میں اٹھنے والے فتنوں کے خلاف یہ کوشش کی تھی اور امت کو متحد کیا تھا۔

ہمیں وہ کوشش کرنی چاہیے جو حضرت شہاب الدین سہروردی کے دور میں اٹھنے والے فتنوں کے خلاف انہوں نے ملی یکجہی کے لئے کی تھی اور اکبر کے دور میں جب دین بالکل منتشر ہو رہا تھا اور اس کی بنیادیں کھولی ہو رہی تھیں تو اس وقت حضرت مجدد الف ثانی نے دین کی اس کشتی کو سنبھالا اور اس بھنور سے اکبر کے خلاف علمی سطح پر جدوجہد کی، اس طرح اللہ تعالٰی نے سرزمین ہندوستان کو دین اکبری کی نجاست سے محفوظ فرمایا اور اس سے پاک کیا۔ اسی طرح معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور انہوں نے اسلام کی ترویج کے لئے کام کیا۔ تو چاہے قادری ہوں، چاہے سہروردی ہوں، چاہے نقشبندی ہوں، چاہے چشتی ہوں۔ ان تمام کی ذمہ داری ہے کہ آج ملت مشکل میں ہے، یہ اپنی مسندوں کی فکر چھوڑیں اور ملت کی، اسلام کی، کلمہ شہادت کی فکر کریں اگر وہ محفوظ ہے تو ہم محفوظ ہیں، اگر اس پر کوئی حرف اٹھ رہا ہے، تو اس میں ہماری بقاء نہیں ہے، ہماری زندگی نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 177506
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش