1
0
Friday 6 Apr 2012 23:40

سانحہ چلاس، ظلم کی داستان

سانحہ چلاس، ظلم کی داستان
اسلام ٹائمز۔ 2 اپریل کی رات راولپنڈی سے گلگت بلتستان کے لیے مسافر بسیں اور پرائیوٹ گاڑیاں اپنی منزل کے لئے روانہ ہوئیں۔ جن میں اسکردو جانے والی مسافر گاڑیوں میں کے ٹو ہمالیہ کی گاڑی نمبر 4360 جس میں 31 مسافر، مشہ بروم ٹورز کی گاڑی نمبر 7095 جس میں 36 مسافر، جیو کمپنی کی گاڑی نمبر 5814 جس میں 20 مسافر، کے ٹو ٹورز کی گاڑی نمبر 4537 جس میں 36 مسافر، نیٹکو کمپنی کی گاڑی نمبر 5850 اور نیٹکو کی دوسری گاڑی 4840 شامل تھیں۔ جبکہ گلگت جانے والی بسوں کی تفصیلات واضح نہیں۔ جب یہ گاڑیاں چلاس کے علاقہ گونر فارم پر پہنچیں تو 40 سے زائد مسلح موٹر سائیکل سواروں نے بسوں کو ٹھیک 11 بجے روک لیا۔ ایک اطلاع کے مطابق 40 سے زائد موٹر سائیکل سوار چلاس سے ان کے تعاقب میں تھے۔ راستہ بھر میں پولیس کی موبائل گاڑی ساتھ تھی۔

گونر فارم کے پاس پہنچنے کے بعد موٹر سائیکل سوار آگے بڑھ گئے اور راستے میں پتھر رکھ کر بسوں کو روک لیا، جہاں پر ہزاروں لوگ پہلے سے منتظر تھے۔ جیسے ہی گاڑیاں رکیں، چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہوگئی۔ مسافر اندر چیختے چلاتے رہے، مسافروں میں خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ چند مسافروں نے جان بچانے کی خاطر بسوں کی کھڑکیوں سے چھلانگ لگا دی، لیکن باہر موجود ہزاروں درندوں نے ان کے ساتھ درندگی شروع کر دی۔ پتھراؤ کا سلسلہ ذرا تھم سا گیا تو انسان نما درندوں نے مسافروں کو گھسیٹ گھسیٹ کر بسوں سے نکالنا شروع کر دیا۔ مسافروں کے سامان کی لوٹ مار بھی شروع کر دی گئی۔ باہر لوگوں کے شناختی کارڈ کی چیکنگ شروع کر دی، جبکہ ان حالات میں پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔

چیکنگ کے بعد اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے گلگت بلتستان کے افراد کو چن چن کر شہید کیا گیا۔ ان دہشتگردوں، وحشیوں نے پہلے پتھروں، ڈنڈوں، چھریوں، آریوں اور کلاشنکوف سے حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں بیسیوں مسافر شہید ہو گئے، نو بسوں کو نذر آتش کیا گیا۔ شہداء کی حتمی تعداد کا تاحال علم نہیں۔ کیونکہ بہت سارے شہداء کو دریا برد کر دیا گیا۔ چند مظلومین کے سروں کو تن سے جدا کیا گیا۔ شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ خواتین اور بچوں کو رُلا رُلا کر وحشت زدہ کیا گیا، اس دوران چند لوگوں کے شناختی کارڈ ہمراہ نہ ہونے یا شیعہ ثابت نہ ہونے کے سبب زندہ چھوڑ دیا گیا۔ اسی دوران سینکڑوں مومنین کو محصور کیا گیا۔ محصورین کو انتظامیہ نے باقی ماندہ بسوں میں روانہ کر دیا۔ راستے میں جگلوٹ کے مقام پر ان مسافروں کو دوبارہ اتار کر ڈنڈوں سے مارا گیا جبکہ اس موقع پر کسی کی شہادت واقع نہیں ہوئی، بعد ازاں مسافروں کو رہا کر دیا گیا۔

سکردو آنے والی بسوں میں 162 افراد موجود تھے، جن میں 150 لوگ زندہ سکردو پہنچ گئے ہیں، باقی گلگت جانے والی بسوں میں گلگت جانے والے مسافروں اور سکردو والے مسافروں کی تعداد کا علم نہیں۔ سانحہ کے دوران زندہ دریا میں کودنے والوں اور دریا برد کی گئی لاشوں کی تعداد کا علم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سکردو سے تعلق رکھنے والے افراد جو گلگت جانے والی بسوں میں سوار تھے، ان کی تعداد کا اب تک علم نہیں۔ ساتھ ہی گلگت جانے والوں کی تعداد کا بھی علم نہیں ہو سکا، البتہ 6 شہداء کی لاشیں گلگت پہنچ چکی ہیں اور گلگت بھر میں کرفیو نافذ ہے، جبکہ بلتستان میں کمیونیکیشن نیٹ ورک مکمل طور پر جام ہے اور دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ بلتستان بھر میں اب تک مسلسل دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے اور بلتستان کی عوام مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں اور حکومت سے مندرجہ ذیل مطالبات کر رہی ہے:

1۔ دشمنوں کے نرغے میں محصور مسافروں کی سلامتی کے ساتھ بازیابی عمل میں لائی جائے۔
2۔ شہداء کے جنازوں کو فوری طور پر منتقل کیا جائے۔
3۔ چلاس میں فوری طور پر فوجی آپریشن کیا جائے۔
4۔ شاہراہ قراقرم پر پاک فوج کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔
5۔ سکردو سے اسلام آباد تک متبادل محفوظ روڈ کی تعمیر فوراً عمل میں لائی جائے۔
6۔ پاک چین بارڈر اور انڈیا بارڈر تک رسائی کے لیے محفوظ متبادل سڑک تعمیر کی جائے۔
7ْ۔ سکردو ائیرپورٹ کو آل ویدر بنایا جائے۔
8۔ پی آئی اے کے کرایوں میں کمی اور پروازوں میں اضافہ کیا جائے۔
9۔ سانحہ چلاس اور سانحہ کوہستان کے پس پردہ سازشی عناصر بالخصوص خود فروختہ مفتی قاضی نثار کو فوراً گرفتار کیا جائے۔

ابھی تک تین شہداء جن میں شہید علی نقی جن کا تعلق کچورا سکردو سے ہے، شہید وزیر جعفر جن کا تعلق گمبہ سکردو سے اور شہید نوشاد جن کا تعلق روندو سے ہے، کی تدفین ہو چکی ہے جبکہ دیگر شہداء جن کی حتمی تعداد کا بھی علم نہیں، کا انتظار ہو رہا ہے۔ جبکہ آج کی فلائٹ میں کراچی میں نگر ہاسٹل میں دہشتگردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والے طالب علم عامر علی کی میت حالات کے پیش نظر گلگت روانہ نہ ہو سکی، ان کی میت گمبہ سکردو دھرنے میں موجود ہے۔

کمیونیکیشن نیٹ ورکس کے جام ہونے کے باعث بلتستان بھر کے عوام میں حکومتی رویہ پر تشویش پائی جاتی ہے۔ دھرنوں کا سلسلہ آج مورخہ 6 اپریل کو بھی جاری ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے سانحہ گزرنے کے تین روز بعد بھی حکومت شہداء کی تعداد اور میتوں کو بازیاب کرانے اور اپنے اپنے مقامات تک پہنچانے میں مکمل طور پر ناکام ہے جبکہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ انسانیت سوز حرکت اور ان کے ساتھ کھیلی جانے والی خون کی ہولی کی کسی نیشنل میڈیا میں کوئی کوریج نہیں۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے 28 فروری کو کوہستان کے مقام پر 18 اہل تشیع کو شہید کر دیا گیا تھا اور وفاقی حکومت نے شاہراہ قراقرم کو محفوظ بنانے، قاتلوں کی گرفتاری کے علاوہ بہت سارے وعدے کئے گئے، جو کہ دھرے کے دھرے رہ گئے اور رحمان ملک نے ایک بار پھر جھوٹا وزیر داخلہ ہونے کا ثبوت دیا۔ اس سانحہ کی تمام تر ذمہ داری رحمان ملک گلگت بلتستان کی حکومت اور قاضی نثار پر عائد ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 150936
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
mashallah
منتخب
ہماری پیشکش