0
Wednesday 27 Jun 2012 19:46

کشمیر، آستان عالیہ سید عبد القادر جیلانی میں لگی آگ کو بجھایا جاسکتا تھا

کشمیر، آستان عالیہ سید عبد القادر جیلانی میں لگی آگ کو بجھایا جاسکتا تھا
مقبوضہ کشمیر کی خانقاہوں، زیارتوں اور اہم یادگاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے ریاستی حکومت گہری نیند سو رہی ہے، جبکہ اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ خاص طور پر لکڑی سے مخصوص طرز تعمیر کی ان عمارتوں میں آگ بجھانے کے ساز و سامان کا کوئی نام و نشان بھی نہیں ہے، وادی کشمیر میں موجود اہم زیارتوں، خانقاہوں اور درگاہوں کے علاوہ مخصوص طور پر لکڑی کے فن پاروں سے تعمیر کی گئی ثقافتی و مذہبی عمارتوں میں آگ بجھانے کے ساز وسامان کا کہیں بھی وجود نہیں ہے جبکہ بار بار خبردار کرنے کے باوجود بھی حکومت اور انتظامیہ ان تاریخی عمارتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں، 25 جون کو زیارت حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی میں لگی خوفناک آگ سے ہونے والے نقصان کو روکا جاسکتا تھا اگر اس درگاہ میں آگ بجھانے کا ساز وسامان موجود ہوتا۔
 
تاہم حکومت کو اس سلسلے میں اگرچہ بار بار کئی متعلقہ ایجنسیوں نے خبردار بھی کیا تھا، تاہم اس کے باوجود خانیار سرینگر میں آستان عالیہ میں ایسی سہولیات موجود نہیں تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچر ہیرٹیج (بھارتی قومی ٹرسٹ برائے فن، تہذیب، میراث) نے ریاستی حکومت کو گذشتہ کئی برسوں سے بار بار خبردار کیا تھا کہ وہ ان اہم اور تاریخی عمارتوں کو آگ سے بچانے کے نظام سے لیس کرے۔
 
میڈیا رپورٹس کے مطابق خانیار میں حضرت محبوب سبحانی شیخ سید عبدالقادر جیلانی کے ساتھ منسوب آستان عالیہ میں لگی پُراسرار آگ سے 10 روز قبل 14 جون کو وقف بورڈ کے وائس چیئرمین ایم واے قادری، جموں و کشمیر قانون کے وزیر علی محمد ساگر اور انتظامی امور کے ایک سینئر آفیسر کے علاوہ محکمہ بجلی کے سینئر انجینئروں کو بھارتی قومی ٹرسٹ برائے فن، تہذیب، میراث نے ان درگاہوں اور خانقاہوں میں بڑھتے ہوئے خطرے اور اس حوالے سے مداخلت اور دھیان نہ دینے کے حوالے سے بھی خبردار کیا تھا۔
 
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں بھارتی قومی ٹرسٹ برائے فن، تہذیب، میراث کشمیر چپٹر کے سربراہ سلیم بیگ نے کہا ہے کہ بیشتر لکڑی سے تعمیر کی گئی خانقاہوں اور درگاہوں میں بجلی اور تعمیراتی تبدیلیاں لوگوں کے نجی عطیہ سے ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں اعلٰی ریاستی انتظامیہ اور متعلقہ وقف بورڈ کے ساتھ تبادلہ خیال کئے بغیر یہ کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ کوئی بھی انفرادی شخص آستان عالیہ میں عطیہ دے کر تبدیلی لاتا ہے، گذشتہ کچھ عرصے سے ان تاریخی اور لکڑی کے فن سے تعمیر کی گئی خانقاہوں اور زیارتگاہوں میں عقیدت مندوں نے نجی طور پر بجلی کی فیٹنگ اور لائٹنگ کے علاوہ پبلک ایڈرس سسٹم بھی نصب کروایا ہے جو ان زیارت گاہوں کے حوالے سے خطرے کا باعث بنا ہوا ہے۔
 
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلٰی کی سربراہی میں کام کرنے والے وقف بورڈ نے زیارتگاہوں اور خانقاہوں میں آگ سے نبٹنے کیلئے مخصوص اوزار اور ساز و سامان بھی نصب نہیں کیا جبکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ وقف بورڈ نے ان زیارت گاہوں، خانقاہوں اور آستانوں میں بجلی کی فیٹنگ کرنے کے حوالے سے ماہر انجینئروں کی خدمات بھی حاصل نہیں کی ہیں، بھارتی قومی ٹرسٹ برائے فن، تہذیب، میراث کشمیر چپٹر کے ہیڈ سلیم بیگ نے اس حوالے سے میڈیا کو مزید بتایا ہے کہ ان خانقاہوں اور آستانوں میں بجلی کی فیٹنگ مقامی انتظامیہ ازخود انجام دیتی ہے جبکہ اس حوالے سے خانیار سانحہ جیسے واقعات کو روکنے کیلئے ایک بہتر منظم نظام کی ضرورت ہے۔
 
ادھر جموں و کشمیر قانون اور پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد ساگر نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ ڈویژنل کمشنر کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جو اس بات کی چھان بین کرے گی کہ اس آستان عالیہ میں آ گ بجھانے سے متعلق آلات کیوں موجود نہیں تھے، انہوں نے کہا کہ ہم اس پہلو پر بھی غور کریں گے اور اس بات کا بھی مشاہدہ کیا جائے گا کہ مستقبل میں کیا کیا جائے، ادھر کشمیر بھر میں لکڑی سے تعمیر کیے گئے ان آستانوں، زیارتگاہوں اور خانقاہوں کی تعداد 22 ہے، جبکہ ایسی چھوٹی زیارت گاہوں کی تعداد بھی درجنوں میں ہے، جو لکڑی کے فن پاروں سے تعمیر کی گئی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 174550
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش