0
Wednesday 2 Apr 2014 10:39

معدنی ذخائر سے مالامال ضلع چاغی دس سالوں بعد بھی پسماندگی کی جیتی جاگتی تصویر

معدنی ذخائر سے مالامال ضلع چاغی دس سالوں بعد بھی پسماندگی کی جیتی جاگتی تصویر

اسلام ٹائمز۔ معدنی ذخائر سے مالا مال چاغی الگ ضلع بننے کے دس سالوں بعد بھی پسماندگی کی جیتی جاگتی تصویر بنے بیٹھی ہے۔ شہرہ آفاق معدنی منصوبے سیندک اور ریکوڈک پراجیکٹس کے باوجود چاغی کے باسی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت پانی کو ترستے ہیں۔ اعلٰی تعلیم، بہتر صحت، اچھے ذرائع مواصلات اور فنی ادارے جیسے سہولیات یہاں کے باسیوں کی قسمت میں ہی نہیں۔ جس کے سبب بے روزگاری سے تنگ نوجوان منشیات کے استعمال کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ سیندک پراجیکٹ اور دیگر متعدد مائنز میں کام کرنے والے ملازمین روزگار کے تحفظ، مناسب تنخواہ اور صاف پانی و خوراک سے محرومی کے سبب استحصال کا شکار بن چکے ہیں۔ دالبندین میں گورنر تبوک کے فراہم کردہ 22 کروڑ روپے کی لاگت سے قائم ضلع چاغی کا واحد عالیشان ہسپتال ادویات اور ڈاکٹرز کی شدید کمی کا شکار ہے۔ جہاں ایمرجنسی میں مریض تڑپ ٹرپ کر اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ پی پی پی کے دور حکومت میں سابق وفاقی وزیر سردار محمد عمر گورگیج کی تاریخی کوششوں سے چاغی کے صدر مقام دالبندین شہر کو نیشنل گرڈ کی بجلی تو مل گئی لیکن دالبندین ہی کے نواحی علاقے آج بھی بجلی سے محروم ہیں۔ سب سے زیادہ قابل دید صورتحال سب تحصیل چاغی کی ہے۔ جہاں دو سالوں سے گرڈ میں بجلی تو ہے لیکن کھمبوں کی عدم تنصیب کے سبب علاقہ مکین بجلی کی فراہمی سے یکسر محروم ہیں۔ انتظامی افسران سمیت چند ضلعی محکموں کے علاوہ بیشتر محکموں اور متعلقہ افسران کا کوئی وجود ہی نہیں۔

عام خیال یہی ہے کہ چاغی میں تعیناتی کے بعد انتظامی حکام بھی کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔ جن کو عوام کی نہیں بلکہ اپنے مفاد کی فکر لگی رہتی ہے۔ دالبندین کی صدر یونین کونسل سے ضلع کونسل چاغی کے نومنتخب رکن اور ضلعی چیئرمین کے متوقع امیدوار میر داؤد خان نوتیزئی کہتے ہیں کہ 2 اپریل 2004ء کو چاغی کا الگ ضلع بننا بابائے چاغی مرحوم الحاج سخی دوست محمد نوتیزئی کی مرہون منت ہے۔ جس کے بعد چاغی کا الگ انتظامی نظام قائم ہوا جس کی وجہ سے چاغی کے عوام کو نوشکی کے چکر کاٹنے سے چھٹکارا ملا۔ سوشل میڈیا پر متحرک چاغی کے فری لانس صحافی محمد حسن بلوچ کہتے ہیں کہ چاغی کے عوام نے دس سال قبل الگ ضلع تو پا لیا مگر ریکوڈک اور سیندک جیسے اہم منصوبے کھو دیئے۔ جن پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور حکمران اشرافیہ قبضہ کر چکے ہیں۔ بیشتر عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ چاغی کا الگ ضلع بننا احسن اقدام ہے۔ لیکن سونے کی چڑیا کہلانے والا چاغی آج بھی ترقی، تعلیم، صحت اور مجموعی انتظامی لحاظ اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو سکا۔

خبر کا کوڈ : 368170
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش