0
Friday 25 Apr 2014 20:53

آئی ایس آئی اور جیو کی آنکھ مچولی

آئی ایس آئی اور جیو کی آنکھ مچولی
رپورٹ: ایس این حسینی

فوج کے خلاف جیو کی مہم حکومت کے لئے درد سر بن گئی ہے۔ وزراء کا ایک گروپ جو جیو کی حمایت میں بیانات بھی دے چکا ہے، اب وزیراعظم نواز شریف پر درمیانی راستہ نکالنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے، جبکہ دوسرا حکومتی حلقہ فوج اور ملک کو بدنام کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عسکری قیادت توقع کر رہی تھی کہ وزیراعظم ازخود اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ملکی اداروں کے خلاف الزام تراشی کا دفاع کریں گے یا اپنے وزراء کو ایسا کرنے کا حکم دیں گے۔ اگر حکومت فورا عسکری اداروں کے دفاع میں آ جاتی تو معاملہ ختم ہو سکتا تھا لیکن بوجوہ ایسا نہ کیا جا سکا۔ پھر وزیراعظم کی جانب سے حامد میر کی عیادت کو بنیاد بنا کر جس طرح بعض وزراء نے، جن میں وزیر اطلاعات پرویز رشید اور رانا ثناءاللہ بھی شامل ہیں، جیو کی ایک طرح سے حمایت کی، اس کے بعد آرمی چیف نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا اور وزارت دفاع کے ذریعے جیو پر پابندی کی درخواست دی گئی۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دو غیر حکومتی شخصیات جن میں ایک معروف بزنس مین اور جیو کے سینئر اینکر پرسن شامل ہیں، کی جانب سے بھی حکومت کو موقع سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا گیا۔ جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ منگل کے روز جیو گروپ کا رویہ مدافعانہ تھا۔ اسکا سبب یہ تھا کہ انہیں عسکری اداروں کی جانب سے براہ راست اقدام یا عدالت کے ذریعے کارروائی کا خطرہ تھا جبکہ حکومت سے بھی انہیں حمایت کی توقع نہیں تھی۔ تاہم منگل کے روز ہونے والی پیشرفت کے بعد جس طرح بعض حکومتی وزراء کھل کر سامنے آئے اور آئی ایس آئی نے عدالت کی بجائے پیمرا کا راستہ اختیار کیا، تو جیو گروپ جارحانہ موڈ میں آتا دکھائی دیا۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ پیمرا میں جن تین لوگوں نے اس کیس کو سننا ہے، ان میں سے دو پر حکومت کی بےجا حمایت اور نوازشات کا الزام پہلے سے موجود ہے۔

ذرائع کے مطابق متعلقہ وزارت کی جانب سے جیو کو یقین دھانی کرائی گئی ہے کہ درمیان کا راستہ نکال لیا جائے گا اور حکومت کا دباؤ جیو کے حق میں ہی استعمال ہوگا۔ انکا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حکومت اس معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنا چاہتی ہے تاکہ جیو کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہ ہو اور عسکری ادارے کا غصہ بھی ٹھنڈا کر دیا جائے لیکن ان ذرائع کے مطابق، عسکری حلقے ایسی کسی کوشش کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ عسکری حلقوں کے قریب خیال کئے جانے والے ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ عسکری حلقے سپریم کورٹ کے تین ججوں کا کمیشن بنا دینے کو آئی ایس آئی پر الزام تسلیم کرنے کے برابر خیال کر رہے ہیں۔ فوج کی خواہش ہے کہ پیمرا ایک ریگولیٹری اتھارٹی کا کردار ادا کرے اور جیو کو ایسی سزا دی جائے جو آنے والے دنوں میں الزام تراشیوں کا راستہ بند کردے۔

ایک سوال کے جواب میں ان ذرائع کا کہنا تھا کہ پرویز رشید، خواجہ آصف اور حکومتی صفوں میں مقبول جیو کے ایک اینکر پرسن وزیر اعظم کو درمیانی راستہ نکالنے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار اور انکے ساتھی وزراء جن میں سعد رفیق بھی شامل ہو چکے ہیں، فوج کا ساتھ دینے اور قانونی کاروائی کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایک مسلم لیگی ذمہ دار کا کہنا ہے کہ پیر کے روز تک حکومت کو عوامی ردعمل کا اندازہ نہیں تھا۔ اس لئے سیفما گروپ کے کہنے پر بعض وزراء جیو کی حمایت میں چلے گئے اور بیانات بھی دے ڈالے۔ مگر جب منگل کے روز وزارت داخلہ کے انٹیلی جنس ذرائع اور پنجاب پولیس کے انٹیلی جنس پولیس کے انٹیلی جنس ونگ کے ساتھ ساتھ لیگی کارکنوں کے ذریعے حکومت کو یہ خبر ملی کہ عوامی سطح پر جذبات جیو کے خلاف منظم ہو رہے ہیں، تو جیو کا حامی گروپ بھی تقسیم ہو گیا۔ عسکری حلقوں کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ عسکری ادارے تمام صورتحال کو مانیٹر کر رہے ہیں اور جیو کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

دوسری جانب ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ جیو گروپ ایکس سروس مین کے سربراہ کے اس بیان پر بھی تشویش کا شکار ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جیو کے مالکان کے خلاف بہت سے ثبوت انکے پاس ہیں۔ اس حوالے سے ایکس سروس مین سوسائٹی کے سربراہ جنرل حمید گل کا کہنا تھا کہ بحیثیت آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے وہ بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن وہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو متعلقہ پلیٹ فارم پر ہی بات کریں گے۔ ایک ذریعے کا دعوی ہے کہ آئی ایس آئی کے پاس جیو گروپ اور اسکے اہم لوگوں کے حوالے سے ہر ثبوت موجود ہے جس میں فنڈز کی داستانوں کے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ ایسے شواہد بھی ہیں کہ قوم دنگ رہ جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ عسکری حلقوں نے پروپیگنڈہ مہم سے بلیک میل نہ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

آخری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے وزراء پر اس تنازع میں بیان بازی پر پابندی عائد کر دی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ عوامی رائے عامہ اور مجموعی صحافتی ردعمل دیکھتے ہوئے حکومت اپنی پوزیشن کا جلد فیصلہ کرلے گی۔ ایک اہم ذریعے نے دعوی کیا ہے کہ ولی خان بابر کے قتل کے بعد بھی جیو نے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی تھی۔ مگر بعد ازاں اصل قاتل پکڑے جانے پر ایسی چپ سادھ لی کہ قاتلوں کا نام بھی لینے سے گریز کرنے لگی۔ ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی نے حامد میر پر حملہ کرنے والوں کی تلاش شروع کردی ہے، تاکہ معاملے کو پوری طرح واضح کیا جا سکے۔ اسلام آباد میں ایک حکومتی ذریعے کا کہنا ہے کہ حکومت پیمرا کا فیصلہ آنے تک غیر جانبدار رہنا چاہتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے فوری کوئی فیصلہ نہ کیا تو اس کے لئے مشکلات بھی کھڑی ہو سکتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 376257
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش