2
0
Saturday 22 Jun 2013 13:52

پشاور کا ننھا شہید

پشاور کا ننھا شہید
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 

پشاور وہ مقام ہے جہاں شیعہ سنی بھائی چارہ مثالی طور پر مشہور ہے۔ محرم کے مہینے میں اہل تشیع کے ساتھ اہلسنت بھی عزاداری میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ خود عزاداری کے انتظامات بھی کرتے ہیں۔ پشاور پاکستان میں اسلامی انقلاب کی تحریک کا پہلا مرکز تھا اور یہیں سے قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی کے وجود کی برکت سے پاکستان میں اسلام حقیقی کا پیغام عام ہوا اور اسلام دشمن طاقتوں کی سازشیں ناکام ہونے لگیں۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد ملت پاکستان نے جس والہانہ انداز میں امام خمینی کی حمایت اور تائید کی، داخلی استبداد اور عالمی استعمار اس کی تاب نہ لا سکے اور ملکی اور غیر ملکی اسلام دشمن عناصر نے متحد ہو کر ملت پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیئے۔

5 اگست 1988ء کو پشاور کے اسی مدرسہ میں جہاں دھماکہ ہوا ہے، علامہ عارف حسین حسینی کو عالمی سازش کے تحت مقامی ایجنٹوں کے ذریعے شہید کروا دیا گیا۔ آج اسی مقام پر قائد شہید کے پوتے اور بیس کے قریب نمازیوں کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ ملت پاکستان کے خلاف ہونے والی سازش جاری و ساری ہے۔ لیکن دوسری طرف سرزمین پاکستان پر حسینیوں کی قربانیوں کا یہ سلسلہ اس بات کی غمازی بھی کر رہا ہے کہ قائد شہید کا پیغام زندہ و سلامت ہے اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی آرزو پوری کرنے کے لیے نسل در نسل کاوشیں تمام تر رکاوٹوں کے باوجو جاری ہیں۔

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت نے کبھی مخلصانہ طور پر ملکی مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ عارضی اقدامات کے ذریعے اپنے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے گر آزمائے ہیں۔ پاکستان کے مسائل کا حل فقط اسلام کے نفاذ میں مضمر ہے۔ اسی کو نعرہ بنا کر ضیاءالحق نے اسلامی شریعت کے نام پر نمائشی اقدامات کئے۔ پورے ملک میں محلے اور دیہات کی سطح پر ذکات اور صلوٰۃ کمیٹیاں بنائی گئیں، ان کمیٹیوں کے لیے مساجد کی ضرورت پڑی، جس کے لیے سعودی عرب کی مالی امداد حاصل کی گئی، جس کے نتیجے میں ملک کے چپے چپے میں وہابی تحریک کا نیٹ ورک بنایا گیا اور جو کام وہابیوں کی کئی عشروں کی محنت اور کوشش سے نہیں ہوسکا تھا، ضیا دور میں چند مہینوں کے اندر ملک کے طول و عرض سرکاری سرپرستی کی وجہ سے آسان ہوگیا۔ ان کمیٹیوں نے سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال کیا، سعودی امداد سے نہ صرف مساجد اور مدارس کا جال بچھایا بلکہ محلے کی سطح پر ضیاءالحق کی ایک سیاسی ٹیم کا کردار بھی ادا کیا، جس کے عوض میں معمولی آمدنی رکھنے والے لوگ لاکھ پتی ہوگئے، لیکن نہ تو پاکستان میں نظام صلاۃ قائم ہوا نہ حقداروں کو ذکات ملی۔ ان جعلی اور نمائشی اقدامات کے خلاف ضیاءالحق کے سیاسی حریفوں نے آواز ضرور اٹھائی، لیکن انہیں اس بات کا بھی موقع ملا کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کو مزید ہوا دیں کہ مذہب تو فقط ایک ہتھیار ہے، جسے حکمران عوام کا استحصال کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

دوسرا اقدام یہ کیا گیا کہ افغانستان میں جو جہاد ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا، اس کو طول دینے کے لیے ضیاءالحق کی جانب سے روسی مداخلت کے خلاف پاکستان کی سرحدوں کے دفاع اور افغان مسلمانوں کی مدد کے نام پر پاکستانی عوام سے اپیل کی گئی کہ چونکہ پاکستان کی مسلح افواج مشرقی سرحد پر بھارتی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے مصروف ہیں، اس لیے پاکستان کے بہادر عوام ہتھیار بند ہو کر پاکستان کی مغربی سرحد پر روسی خطرے کے خلاف جنگ کریں۔ ضیاءالحق نے یہ اپیل لال مسجد اسلام آباد میں کی، اور یہ پورے ملک میں نشر کی گئی۔ جس طرح ذکات اور صلوٰۃ کمیٹیاں بنائی گئی تھیں، ایسے ہی پورے ملک سے جہادی جتھے تیار کئے گئے۔ ان جہادی جتھوں کی تیاری میں بھی خاص خیال رکھا گیا کہ ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جائے جو ذہنی، فکری، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی حوالے سے پسماندہ ہوں اور ان کا تعلق اہلحدیث یا دیوبندی مسلک سے ہو۔ چند مہینوں میں پاکستان کی گلی گلی میں بھرتی مرکز کھل گئے اور قافلوں کے قافلے افغانستان جانا شروع ہوگئے۔

ان دونوں اقدامات کے ذریعے پاکستان میں دیوبندی اور وہابی شدت پسندی کو فروغ ملا اور عامۃ الناس میں اسلام اور شریعت ایک مذاق اور لطیفہ بن کے رہ گئے۔ ضیاءالحق کے ان اقدامات کے دوران کبھی شیعوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا، کیونکہ ابھی تو اس کا بیج بویا گیا تھا اور دوسرے یہ افغانستان کے محاذ پر مصروف تھے، لیکن پھر بھی 80 کی دہائی میں دس سالہ افغانستان میں روس اور امریکہ کی پراکسی وار کے دوران پاکستان کا کوئی ایسا شہر نہیں تھا، جہاں دھماکے نہ ہوئے ہوں یا دہشت گردی نہ ہوئی ہو۔ جہاد افغان کے دنوں میں شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی اور نہ عزاداری اور نماز کے اجتماعات پر خودکش دھماکے ہوئے اور نہ ہی ضیاء حکومت نے سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں کی سرپرستی کی۔ لیکن ضیاء کے اقدامات نے ایسا ماحول بنا دیا کہ اس ماحول سے سپاہ صحابہ شیعہ دشمنی کا نعرہ لیکر اس طرح نکلی جیسے امیر شام کے اقدامات کے نتیجے میں یزید پروان چڑھا اور اس نے نہ صرف آل رسول (ص) کو شہید کروایا بلکہ خانہ خدا پر آگ برسائی اور مدینہ کی حرمت کو پائمال کیا۔

ضیاء الحق مر گیا اور اس کی کاشت کی ہوئی فصل پک کر تیار ہو گئی۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کی غرض سے اسلام اور شریعت کے اچھے نام کو جس برے طریقے سے استعمال کیا گیا، اس سے دین مبین اسلام اور مملکت خداداد پاکستان کا اتنا نقصان ہو رہا ہے جتنا بھارتی سازش کے نتیجے میں ملک کے دو لخت ہونے سے بھی نہیں ہوا۔ لالچ، ہوس اقتدار اور اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے عالمی طاقتوں پر انحصار کی پالیسی اختیار کرنے کی وجہ سے آج صلوٰۃ کمیٹیوں اور مصنوعی جہادی نعروں کی کوکھ سے ایسے بددماغ جنم لے رہے ہیں، جنہوں نے بنو امیہ کے اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خارجیوں کے مظالم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

ضیاءالحق کے اقدامات کا نتیجہ آج سامنے آ رہا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد یہ نہیں تھا کہ پاکستان میں فقط ہماری مذہبی رسوم رک جائیں یا ہماری پارٹیوں کے افراد پارلیمنٹ نہ جانے پائیں۔ ضیاءالحق نے امریکائی اسلام کو فروغ دیا، تاکہ انقلاب اسلامی ایران کے جلوہ نور سے نظام ولایت کی پھوٹتی ہوئی کرنیں پاکستان کی فضاووں کو تابندہ نہ کرسکیں۔ ضیاءالحق نے نہایت ہوشیاری سے بعض شیعہ سنی علماء کو بھی اپنا ہمنوا بنایا۔ جب یہ اقدامات کئے جا رہے تھے تو پاکستان کے کسی شیعہ سنی عالم اور کسی بھی مذہبی جماعت کے قائد کو ان کا ادراک نہیں تھا اور کسی کو برا محسوس ہوا تو یہ فقط ایک خیال یا اختلاف کی حد تک تھا۔ اس امریکی نمائشی اسلام کے خلاف سب سے پہلی اور تنہا آواز قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی کی تھی۔ قائد شہید کے دور میں پاکستان کے گلی کوچوں میں شیعہ سنی مسلمانوں کے خلاف خودکش دھماکے نہیں ہوا کرتے تھے اور نہ ہی فرقے کی بنیاد پر کسی کو چن چن کر نشانہ بنایا جاتا تھا۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ علامہ عارف حسین حسینی کو نشانہ بنایا گیا؟ کیوں انہیں شہید کیا گیا؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شہید عارف حسین حسینی کو اس لیے شہید کیا گیا کہ پاکستان میں اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے نفاذ کے سچے داعی تھے۔ شہید نے پاکستان میں اسلامی نظام کا شعور عطا کیا اور فہم اسلام کو تحریکی تناظر میں پیش کیا۔

میں جب بھی شہید حسینی کے شہید پوتے کی تصویر دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ پشاور میں شہید ہونے والے شہداء سب شہید حسینی کی نظریاتی نسل سے ہیں۔ پاکستان میں فرزندان شہید حسینی کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی نظام کے لیے اپنی کوششوں کو استعماری سازش کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت گری کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ قائد شہید نے پاکستانی معاشرے میں اسلامی نظام کی جو طلب پیدا کرنے کی کوشش کی اسکو آگے بڑھانا اور پایہ تکمیل تک پہنچانے کے اپنے خون کے نذرانے دینا شہید کے تمام پیروکاروں کی ذمہ داری ہے اور اسلامی نظام کا شعور پیدا کرنا اور عوام کی نظریاتی تربیت کے ذریعے ان جذبات کو درست سمت میں رکھنا قائدین کا فریضہ ہے۔

خیال رہے ہمارے دھرنوں میں مردہ امریکہ کا نعرہ نہ ہونے کی حد تک کم سنائی دے رہا تھا، کہیں ساری سازشوں کا مقصد اصل ہدف سے ہماری توجہ ہٹانا تو نہیں کہ پاکستان کے مسلمان داخلی مشکلات میں پھنس جائیں اور عالمی سطح پر نائب امام کی آواز میں آواز ہی نہ ملا سکیں؟ آج اگر قائد شہید کے پیروکاروں کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ عارضی رکاوٹوں اور ایشوز کو ہی اپنا مقصد بنا کر نہ چلیں تو ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ محل نما قلعہ بند اداروں سے طعنہ زنی کی جا رہی ہے، بلکہ اپنی سمت اسی ہدف کی جانب برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، جس کی خاطر شہید عارف حسین حسینی نے اپنی جان قربان کی۔ بصورت دیگر یہ الزام سچ ثابت ہوگا کہ ان کا امام خمینی کے انقلاب سے تعلق دکھاوا ہے، انہیں اور خالص اسلامی نظام کے نفاذ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ 

پرفتن حالات میں اپنی حفاظت کا بندوبست ہر مسلمان کا فرض ہے اور پاکستان میں امن قائم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، جس کے لیے سیاسی اور عوامی سطح پر موثر انداز میں آواز بلند کرنا ضروری امر ہے، لیکن پاکستان میں قائد شہید کے خون سے جس تحریک کی آبیاری ہوئی ہے، اس کا مقصود اور محرک فقط امن و امان کے قیام تک محدود نہیں بلکہ نظام ولایت کے زیر سایہ پوری دنیا میں اماؑم زمانہ کی عادلانہ حکومت کے قیام تک جدوجہد سے عبارت ہے۔ یہی قائد شہید کا اسوہ ہے اور پشاور کے ننھے شہید کا پیغام بھی۔
خبر کا کوڈ : 275752
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سردار صاحب: پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ سب کی خواہش ہے مگر عملاً اتنے فرقوں کا مشترکہ اسلام نافذ ہونا ناممکن ہے۔۔۔اس کے لئے پہلے صدیوں تک اسلام خالص کے لئے تقریب المذاہب کی ضرورت ہے، جس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ رہا حفاظت کا مسئلہ تو یہ ریاستی ذمہ داری ہے، انفرادی نہیں
نیاز مند
کاظمی
Iran, Islamic Republic of
سلام خان صاحب
ہمارے قائدین کو ابھی الیکشن کامیابیوں سے ہی فرصت نہیں کہ وہ قوم کو اصل ہدف کی طرف متوجہ کرسکیں یا خود ہوسکیں۔ خدا ہماری قوم کو مخلص قیادت عطا کرے۔
ہماری پیشکش