0
Tuesday 9 Nov 2010 22:29

طالبان کوئی فرشتے نہیں،پیسوں کے لئے ملکی خفیہ اداروں کیلئے کام کرنیوالوں کو غیر ملکی بھی خرید سکتے ہیں،لطیف آفریدی

طالبان کوئی فرشتے نہیں،پیسوں کے لئے ملکی خفیہ اداروں کیلئے کام کرنیوالوں کو غیر ملکی بھی خرید سکتے ہیں،لطیف آفریدی
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزي رہنما اور پاکستان کے معروف قانون دان لطیف آفریدی کا اسلام ٹائمز کیلئے خصوصی انٹرویو 

اسلام ٹائمز:گزشتہ جمعہ کے دن صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے درہ آدم خیل میں خودکش دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے،جس میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں آپ ان حملوں کے عوامل اور وجوہات خاص طور پر اس تناظر میں کہ طالبان نے ان واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے،کیا کہیں گے۔؟
لطیف آفریدی:یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مساجد،عبادتگاہوں،نماز عید کے اجتماعات،قبائلی جرگوں،زيارت گاہوں حتٰی پبلک مقامات پر دھماکے اور حملے کئے ہیں۔یہ دھماکوں کے ذریعے ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں،لیکن اس طرح کی دہشت گردانہ کاروائیوں سے حکومتیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔یہ بات یہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ اقدامات اقتدار حاصل کرنے کے لئے نہیں ہیں،پس بنیادی سبب کیا ہے۔ہمیں سبب اور عوامل تلاش کرنے کے لئے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کی صورتحال کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
طالبان ایک طرف کرزی سے مذاکرات کرنے جا رہے ہیں۔امریکہ نے طالبان رہنماؤں مثلا" ملاکبیر و غیرہ کے لئے پاکستان کو اجازت دی کہ وہ ان رہنماؤں کو ہیلی کاپٹر فراہم کریں اور انہیں کابل لے جائيں تاکہ افغان صدر سے یہ مذاکرات کر سکیں۔
اس اقدام سے واضح ہو جاتا ہے کہ طالبان کے پیچھے اصل طاقت کون ہے اور کون انکی تربیت کرتا ہے اور کون انکو مذاکرات کے لئے بھیجتا ہے۔ادھر سعودی عرب نے بھی کہا ہے کہ طالبان جب تک دہشت گردوں سے اپنے آپ کو الگ نہیں کرتے،ہم مذاکرات میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔پس ثابت ہوا کہ طالبان کے پیچھے جو ذہن کارفرما ہے وہ جب تک افغانستان کو ایک برادر ملک نہیں سمجھتا،اس وقت تک حملوں اور دہشت گردی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
پاکستان کے مذہبی جماعتیں منجملہ جماعت اسلامی زبان سے یہ کہتی ہے کہ اس طرح کی دہشت گردانہ کاروائیاں مسلمان نہیں کر سکتے،لیکن جب طالبان ان کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں تو ان کو چپ لگ جاتی ہے۔پاکستان کی مذہبی جماعتیں جھوٹ بولتی ہیں،وہ منافقت کرتی ہیں۔طالبان کی مدد کرتی ہیں اور کھل کر ان کے بارے میں اپنے موقف کا اظہار نہیں کرتیں۔
جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے رہنما ان دہشت گردانہ کاروائيوں اور ان کے ذمہ داروں کی مذمت نہیں کرتے،وہ ایک طرف صوبہ خیبر پختونخوا میں اے این پی کی حکومت کو کمزور بھی کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح کی کاروائیوں پر خاموشی اختیار کر کے،طالبان کی حمایت کر کے اور صوبائي حکومت پر تنقید کر کے اے این پی کی حکومت کو ختم کرنے کے بھی خواہشمند ہیں۔وہ صوبہ کی حکومت کو ہر حالت اور ہر قیمت پر واپس لینا چاہتے ہیں۔کم عمر بچوں کو خودکش حملوں کے لئے کون تیار کر رہا ہے اور کون اسکی اخلاقی حمایت کر رہا ہے،وہی عناصر ان حملوں کے پیچھے ہیں۔اس میں بیرونی عناصر بھی شامل ہیں اور اندرونی بھی۔
اسلام ٹائمز:اسلام ایک امن پسند دین ہے وہ انسانوں کے قتل عام اور دہشت گردی کو ہرگز جائز نہیں سمجھتا،حتٰی کفار کے ساتھ مصالحت اور مفاہمت کے ساتھ زندگي گزارنے پر زور دیتا ہے ان تعلیمات کی روشنی میں وہ انتہاپسند جو امریکہ کے خلاف جنگ کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اور مساجد اور پبلک مقامات پر عام شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں ان کا ہدف اسلام کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے اور کیا امریکہ بھی ان کی پشت پر ہو سکتا ہے۔؟
لطیف آفریدی:میں انتہائي احترام سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا جوں جوں ترقی کرے گي۔جمہوریت پروان چڑھے گی،اسلام کے بارے میں نئی نئی تشریحات سامنے آئیں گی،اس بات کا امکان ہے کہ مسلمانوں کے اندر ان تشریحات کی بناء پر مختلف گروہ وجود میں آئیں۔ہمارے ہاں سنی شیعہ،دیو بندی،بریلوی اختلافات کو ہوا دی گئی،یہ سلسلہ صرف اس صورت میں رک سکتا ہے جب حکومت فرقہ واریت کو سختی سے کنٹرول کرے۔کفر کے فتوے دینے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔فرقہ واریت کی آگ سے بچنے کے لئے ہمیں سخت اقدامات انجام دینے ہوں گے،ورنہ پنجابی،سعودی یا اسطرح کے دوسری سامراجی عناصر ہماری قسمت اور ملک کی تقدیر سے کھیلتے رہیں گے۔
اسلام امن کا دین ہے،قرآن امن و صلح کا پیغام دیتا ہے۔ہم قرآن و دین پر عمل نہیں کرتے،صرف ظاہری نعرے لگاتے ہیں،ہم ایک خدا ایک رسول ایک کتاب اور مشترک دین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،لیکن عمل میں ہمارا کردار اس کے متضاد ہے۔باہر کی خفیہ ایجنسیاں اور ہماری اپنی ایجنسیاں بھی ان اختلافات سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
اسلام ٹائمز:بعض علماء مثلا" ختم نبوت حتٰی جماعت اسلامی کے نائب امیر سراج الحق نے بھی گزشتہ دنوں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ایک مسلمان اس طرح کی کاروائیاں انجام نہیں دے سکتا۔آپ نے بھی اپنی گفتگو میں اشارہ کیا ہے کہ خفیہ ادارے ان اختلافات اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اگر یہ سب کچھ درست ہے تو طالبان تنظیم اس طرح کے حملوں کی ذمہ داری کیوں قبول کرتی ہے-؟کم سن نوجوانوں کو خودکش کاروائیوں کے لئے تیار کرتی ہے تو آپ کی گفتگو کے تناظر میں کیا یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ طالبان خفیہ اداروں اور بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔؟
لطیف آفریدی:حکومت پاکستان صوبہ خیبر پختونخوا میں تقریبا" بیس سال سے پختونوں کے ساتھ ایک کھیل کھیل رہی ہے،جہاد کے بہانے دنیا بھر سے پیسہ لیا۔بتیس مختلف ممالک کے سرمائے اور امداد سے روس کے خلاف جنگ لڑی۔بہرحال سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔روس کے ساتھ جنگ کے لئے ہماری حکومت اور ایجنسیوں نے جن سانپوں کو پالا پوسا وہ جنگ کے خاتمے کے بعد بے کار ہو گئے اور یہ تربیت شدہ عسکری گروہ،جو پاکستان نے تربیت کئے تھے وہ نئے کام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے،وہ اب سب کے لئے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔
میں یہاں پر آپ کو بتاتا چلوں کہ سی آئي اے نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے روس کے خلاف جنگ میں سو ارب ڈالر پاکستان کو دیئے،جن میں آٹھ ارب ڈالر مذہبی جماعتوں اور انکے قائدین کو دیئے گئے۔مذہبی قائدین کی روز مرہ کی زندگي میں امریکہ کے اس پیسے کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔امریکی سرمائے اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے تیار کردہ مذہبی گروہوں کے یہ کارکن اب ایک سانپ کی مانند ہیں،جنہوں نے امریکہ اور حکومت پاکستان کو ڈسنا شروع کر دیا ہے،البتہ امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کے بعض ادارے طالبان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔یہ ایک فطری امر ہے کہ جب آپ کسی کو پتھر ماریں گے تو جواب میں بھی پتھر ہی آئے گا،امریکہ کے خفیہ اداروں اور دنیا کے دوسرے ممالک کی ایجنسیوں کی مداخلت بھی سب پر عیاں ہے،اگر آپ کشمیر میں ہندوستان کو تنگ کریں گے تو وہ بھی لازماً اس کا جواب دے گا۔پاکستان اگر طالبان کے ذریعے دوسرے ممالک کو تنگ کرے گا،تو وہ ملک بھی چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
اسلام ٹائمز:کیا یہ عمل اور ردعمل طالبان کے ذریعے انجام پا رہا ہے۔؟
لطیف آفریدی:حقیقت یہ ہے کہ جنگ میں ہر چیز جائز ہوتی ہے،اگر ہم اسلام کے نام پر امریکہ،ہندوستان اور افغانستان کو نشانہ بنائیں گے،تو یہ ممالک بھی اسی طرح کے افراد کے ذریعے جو ماضی میں امریکی اور پاکستانی سائے میں تربیت پاتے رہیں،انکو اپنے لئے استفادہ کے لئے استعمال کریں گے۔امریکہ کے لئے آسان ہے کہ ان عسکری گروہوں میں سے بعض افراد کو خرید کر اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرے،اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بدنام دونوں طرف سے اسلام ہی ہو گا۔امریکہ پاکستان میں بہت زيادہ اثر و نفوذ رکھتا ہے۔
1954ء سے لیکر اب تک اس نے پاکستان کی بہت زیادہ مدد کی ہے۔ پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسیاں امریکی سرمائے اور تربیت سے موجودہ مقام تک پہنچی ہیں۔امریکہ کے پاس فوج،سیاستدانوں،خفیہ اداروں اور عام عوام میں جاسوسوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ طالبان بھی کوئی فرشتے نہیں ہیں امریکہ ان کو بھی خریدتا ہے،جو پیسے کے لئے ملکی خفیہ اداروں کے لئے کام کرتے ہیں،وہ غیر ملکیوں کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 43602
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش