0
Thursday 6 Feb 2014 01:52

مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی کا بدلہ لیا ہے، پشاور ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، مست گل مینگل

مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی کا بدلہ لیا ہے، پشاور ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، مست گل مینگل
اسلام ٹائمز۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ضلع پشاور کے کمانڈر مست گل مینگل نے نامعلوم مقام سے صحافیوں کو بتایا کہ وہ قصہ خوانی کوچہ رسالدار ہوٹل میں خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ ان کے بقول یہ راولپنڈی میں 10 محرم کو مدرسہ تعلیم القرآن میں معصوم طالب علموں کا بدلہ ہے کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر خالد حقانی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ بدلہ ضرور لیں گے۔ ان کی خواہش پوری کرنے کے لئے نہ صرف پشاور قصہ خوانی کوچہ رسالدار ہوٹل میں حملہ کیا بلکہ ضلع پشاور کے مختلف علاقوں میں بنک منیجر وقار حسین، عالم الموسوی اور علی اصغر کا قتل بھی شامل ہے۔ اس موقع پر مفتی حسان سواتی نے کہا کہ یہ ذمہ داری ہم نے جنگی کمانڈر مست گل مینگل کو دی تھی جو کہ انہوں نے کل رات 9 بجے کے قریب پشاور قصہ خوانی میں پوری کر دی۔ مفتی حسان سواتی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ حملہ امن مذاکرات میں رکاوٹ نہیں بنے گا جب تک امن مذاکرات میں فائر بندی نہ ہو جائے ہمارے حملے جاری رہیں گے۔

دیگر ذرائع کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک رکن، جنہوں نے خود کو ٹی ٹی پی پشاور کا ضلعی چیف قرار دیتے ہوئے منگل کی شام ایک ہوٹل پر ہوئے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی، جس میں نو افراد جان بحق ہوئے تھے۔ اگرچہ تحریک طالبان پاکستان نے منگل کے روز پشاور کے علاقے کوچہ رسالدار میں واقع پاک ہوٹل پر ہوئے حملے میں اپنی مداخلت سے انکار کیا تھا، گذشتہ روز بدھ کو مفتی حسان سواتی نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ یہ حملہ گذشتہ سال نومبر میں راولپنڈی کے ایک مدرسہ تعلیم القرآن پر ہوئے حملے میں معصوم طالبعلموں کی ہلاکت کا ردعمل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا وہاں زیادہ تر پاراچنار سے لوگوں آتے ہیں اور یہ ناصرف یہ حملہ، بلکہ تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے رہنماء علی اصغر اور ایک بینک منیجر کے قتل کا بھی ردِعمل ہی تھا۔

مفتی حسان سواتی کا کہنا تھا کہ پشاور ہوٹل پر کیا گیا حملہ ہمارے مرکزی ڈپٹی امیر شیخ خالد حقانی کی ہدایت پر کیا گیا جو راولپنڈی پر ہوئے حملے کا بدلہ تھا۔ مفتی حسان ٹی ٹی پی کی سپریم شوریٰ کے ممبر ہیں، لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ آیا انہیں کب ٹی ٹی پی پشاور کا چیف مقرر کیا گیا۔ خیال رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے گروپ کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انہوں نے مفتی حسان کے بیان پر کوئی ردعمل دیا ہے۔ ادھر سکیورٹی ذرائع نے کچھ وقت پہلے مفتی حسان کی جاسوسی کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا اس نئی پشرفت سے حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحتی عمل پر کیسا اثر مرتب ہوگا، لیکن امن مذاکرات کے لیے طالبان کی جانب سے نامزد کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی تبصرے سے پہلے طالبان سے بات کریں گے۔

کمیٹی کے تین اراکین میں سے ایک جماعتِ اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہم خان نے میڈیا کو بتایا کہ جہاں تک ہم جانتے ہیں طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے، لیکن ہم اور اس نئے پیش رفت پر بات کرنے کے لیے ان سے رابطہ قائم کریں گے۔ مصالحتی عمل کے لیے حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کے کوآرڈیننٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ترجمان کے باضابطہ جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی کمیٹی کے ساتھ ملاقات کی کوششیں ناکام رہی ہیں اور ہم اب ان کا انتظار کر رہے ہیں۔

مفتی حسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان حملوں سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کمزور نہیں ہوگا، لیکن جب تک بات چیت کے ذریعے دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی نہیں ہوجاتی، شدت پسند اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مفتی حسان کے پس منظر میں ٹی ٹی پی کا بینر تھا اور انکے ہمراہ حزب المجاہدین کے رہنما ہارون خان، الیاس گل بھی موجود تھے۔ جن کو 1995ء میں ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں جیل سے فرار ہونے کے بعد ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کے بعد شہرت ملی تھی۔ ان کا تعلق کرم ایجنسی کے علاقے سدا سے ہے۔ 47 سالہ جنگجو نے اگست 2003ء میں پشاور کے قریب ایک حملے کیا تھا اور جس اس کے بعد سے ان کا ٹکھانا سمجھا جاتا ہے۔ مفتی حسان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پشاور حملوں کے لیے مست گل کو ہدایت دی تھی۔

ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پشاور میں ہونے والے بم دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کا پشاور کے سینما گھر میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم جنداللہ سے کوئی تعلق نہیں اور احمداللہ مروت کا مجاہدین حلقوں میں کوئی تعارف نہیں۔ بدھ کو جاری کردہ بیان میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان حالیہ دنوں کے دوران پشاور میں ہونے والے بم دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔ اس کیساتھ ہی یہ بات بھی ہم واضح کرتے ہیں کہ جنداللہ نام کا تحریک طالبان کا کوئی ذیلی گروپ نہیں ہے۔ ترجمان نے کہا کہ احمداللہ مروت جو ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، اس نام کے کسی شخص کو مجاہدین حلقوں میں کوئی نہیں جانتا ہے، لہٰذا کسی واقعہ کی ایسے کسی نام سے قبول ہونے والی ذمہ داری کو تحریک طالبان کی کارروائی نہ سمجھا جائے اور نہ ہی ایسی ذمہ داری کو ہم سے منسوب کیا جائے۔ دریں اثناء کالعدم تنظیم جنداللہ کے کمانڈر احمد اللہ مروت نے تحریک طالبان کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنداللہ اپنے معاملات میں آزاد اور خودمختار ہے، ہماری تنظیم ایران سے صومالیہ تک پھیلی ہوئی ہے، کسی کی محتاج نہیں ہے۔ ہمیں کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں۔
خبر کا کوڈ : 348854
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش