0
Saturday 22 May 2021 13:56

گلگت میں مناظرے اور مباہلے کی نوبت نہیں آئی، فریقین کی ایک دوسرے سے معذرت

گلگت میں مناظرے اور مباہلے کی نوبت نہیں آئی، فریقین کی ایک دوسرے سے معذرت
رپورٹ: ایل اے انجم

گلگت میں مناظروں اور مباہلوں کے چیلنج سے پیدا ہونے والی ہیجانی اور غیر یقینی صورتحال بالآخر اس وقت ختم ہوگئی، جب مرکزی امامیہ جامع مسجد کے امام سید راحت حسین الحسینی اور مرکزی جامع مسجد اہل سنت کے مولانا قاضی نثار احمد نے مناظروں اور مباہلوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے دل آزاری پر ایک دوسرے مسلک کے لوگوں سے معذرت بھی کر لی۔ پارلیمانی کمیٹی اور امن کمیٹی کے اراکین، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی محمد الیاس صدیقی، معاون خصوصی حیدر خان، صوبائی وزراء حاجی شاہ بیگ، گلبر خان، سابق نگران وزیر ناصر زمانی، سابق نگران وزیر مولانا سرور شاہ، سابق نگران وزیر جوہر علی راکی، اسلم ایڈووکیٹ سمیت دیگر قائدین گذشتہ پانچ روز سے مسلسل کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح گلگت شہر میں سلگتی فرقہ واریت کی آگ کو بجھایا جائے۔

پارلیمانی اور امن کمیٹیوں کے اراکین گذشتہ کئی روز سے مولانا قاضی نثار احمد اور سید راحت حسین الحسینی سے مسلسل مذاکرات کر رہے تھے۔ انہیں کامیابی جمعہ اور جمعرات کی درمیابی شب ملی۔ رات گئے تک ہونے والے مذاکرات میں دونوں مذہبی قائدین نے مناظروں اور مباہلوں سے دستبردار ہونے کا یقین دلایا اور اگلے روز یعنی جمعہ کے روز دونوں مذہبی قائدین کی جانب سے الگ الگ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں مباہلے سے دستبردار ہونے کے ساتھ ایک دوسرے مسلک کے لوگوں سے معذرت بھی کر لی۔ جمعہ کی صبح دونوں قائدین کے دستخط شدہ اعلامیے سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی گلگت شہر کے حالات معمول پر آنے لگے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ بعد ازاں پارلیمانی و امن کمیٹیوں کے اراکین نے صوبائی وزیر اطلاعات فتح اللہ خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے تفصیلات سے آگاہ کیا۔

آغا راحت حسین الحسینی کا بیان
مرکزی امامیہ جامع مسجد کے خطیب علامہ سید راحت حسین الحسینی کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ''میں آغا راحت حسین الحسینی امام جمعہ و الجماعت و قائد ملت تشیع گلگت بلتستان نے گذشتہ عید کے خطبے میں تبلیغ و خیر خواہی کی بنیاد پر دعوت مذہب تشیع کا اعلان کیا تھا اور اس ضمن میں مناظرہ اور مباہلہ کو بھی بطور حکایت بیان کیا تھا. بعد ازاں عید والے خطبے پر ہمارے دوسرے فرقے کے بھائیوں کی طرف سے کچھ ویڈیوز اور تحریری بیان سننے پڑھنے کے بعد دوسرے دن نگر والے جلسے میں مناظرہ اور مباہلہ کا اعلان کیا تھا، بعد ازیں مختلف علماء و عمائدین, پارلیمانی امن کمیٹی و دیگر مسالک کے جید علمائے کرام، دوست احباب کی ملاقاتوں اور مشوروں کے بعد ان دونوں بیانات کے الفاظ اور میری تقریر سے مسلک اہل سنت اسلامی فرقے کے بھائیوں کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں اور اپنے دونوں اعلانات مناظرہ اور مباہلہ واپس لیتا ہوں۔ میں ہر قسم کے حکومتی قوانین اور ہدایات پر تعاون کرنے کو تیار ہوں، تاکہ علاقے میں پائیدار امن برقرار ہوسکے، صحابہ کرام کی توہین سے اجتناب ہوگا۔''

مولانا قاضی نثار احمد کا بیان
دوسری جانب مرکزی جامع مسجد اہل سنت گلگت کے خطیب قاضی نثار احمد کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ''میں قاضی نثار احمد، خطیب مرکزی جامع مسجد گلگت و امیر تنظیم اہل سنت و الجماعت گلگت بلتستان و کوہستان نے گذشتہ عید کے خطبے میں جناب آغا راحت حسین الحسینی کی طرف سے مذہب تشیع کو قبول کرنے کی دعوت اور پھر نگر جلسہ میں مناظرہ اور مباہلہ کا چیلنج اور حضرت سیدنا ابوسفیان اور حضرت امیر معاویہ کی شان میں گستاخی وغیرہ کا ذکر کرنے پر چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک خط شائع کیا، جس کو میں آغا صاحب کا بیان واپس لینے پر واپس لیتا ہوں۔ میرے لب و لہجہ سے مسلک اہل تشیع اسلامی فرقے کے بھائیوں کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں، صحابہ کرام اور اہلبیت عظام کا احترام میرے ایمان کا تقاضا ہے، میں پاکستان کے تمام مروجہ قوانین کا احترام کرونگا، تاکہ علاقے میں امن برقرار رہے۔''

واقعہ کب شروع ہوا؟
عید الفطر کے روز سید راحت حسین الحسینی نے خطبہ کے دوران کہا کہ گذشتہ سالوں میں قائد شہید (آغا ضیاء الدین) نے ان سب کو مناظرے کا چیلنج کیا، لیکن جواب بن نہیں پایا، قائد شہید نے کہا تھا کہ میں ان کی مسجد میں جائوں گا، اگر میں مناظرہ ہار جائوں تو میں پوری قوم کے سامنے ان کا مسلک قبول کرونگا۔ لیکن قائد شہید کا چیلنج کسی نے قبول نہیں کیا۔ ان کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے انہیں گولی سے جواب دیتے ہوئے شہید کیا گیا۔ اس کے بعد بندہ حقیر (آغا راحت) آیا، مناظرے کا چیلنج انہوں نے دیا تھا، میں نے مباہلے کا چیلنج دیا۔ مناظرے میں شاید حق واضح نہ ہو جتنا مباہلے میں حق واضح ہو جاتا ہے۔ اس کیلئے بھی تیار نہ ہوئے۔ میں سب کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنی دنیا اور آخرت کو بچائیں، میں آپ سب کو شیعہ بننے کی دعوت دیتا ہوں۔''

اس خطاب کے بعد گویا چیلنج اور تنظیم اہل سنت و الجماعت گلگت اور مرکزی امامیہ کونسل کے درمیان خطوط کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 17 مئی کو  مرکزی اہل سنت جامع مسجد کے خطیب مولانا قاضی نثار احمد کی جانب سے سید راحت حسین الحسینی کے نام خط میں ان کا چیلنج قبول کرتے ہوئے مناظرے اور مباہلے کیلئے وقت اور جگہ کے تعین کا مطالبہ کر دیا۔ اسی روز مرکزی امامیہ کونسل نے جوابی خط لکھا جس میں کہا گیا ''چیلنج قبول کرنے پر آغا راحت سجدہ شکر بجا لائے ہیں، چونکہ ماضی میں مناظرے بہت ہوتے رہے، جن کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اس لیے اس بار مباہلہ کرنے کا فیصلہ ہوا ہے، تاکہ حقیقت عیاں ہو اور علاقہ سے فساد اور بدامنی ہمہشہ ہمیشہ کیلئے ختم اور حق کا بول بالا ہو۔

خط میں مزید کہا گیا کہ آغائے محترم (سید راحت حسین) نے فرمایا ہے کہ 21 مئی بروز جمعہ سہ پہر تین بجے شاہی پولو گرائونڈ گلگت میں ضلعی انتظامیہ لکڑیوں کا انتظام کریگی۔ صوبائی حکومت، فورس کمانڈر، چیف سیکرٹری اور عدالت کے معزز ججوں کی موجودگی میں آغا راحت حسین الحسینی اور مولانا قاضی نثار احمد اپنی حقانیت ثابت کرنے کیلئے آگ میں کود جائیں گے، جو بچ جائے گا، وہ حق ہوگا اور جو جل جائے گا، وہ ہمیشہ کیلئے باطل اور فی النار تصور کیا جائے گا۔ جناب قاضی نثار احمد صاحب آپ سے گزارش ہے کہ آغا راحت حسین الحسینی مقررہ وقت پر بڑی شدت کے ساتھ آپ کے منتظر رہیں گے، امید ہے آپ بروقت تشریف لائیں گے۔''

18 مئی کو تنظیم اہل سنت و الجماعت گلگت بلتستان کے سیکرٹری نشر و اشاعت حافظ نوید احمد اشرفی کے دستظ سے آغا راحت حسین الحسینی کے نام ایک اور خط لکھا گیا، جس میں انہیں (آغا راحت) کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ''آپ ہماری دعوت قبول کریں، ورنہ ہم ٹھیک تین بجے مقررہ جگہ پر مباہلہ کیلئے تیار ہیں، کیونکہ آپ نے جگہ اور وقت کا تعین کرکے ہماری مشکل اور بھی آسان کر دی ہے۔ آپ اپنے عقائد کو بیان کرکے خود کو اہل حق ثابت کرینگے، ہم آپ کو باطل ثابت کرینگے، حق اور باطل واضح نہ ہونے کی صورت میں آیت مباہلہ کی روشنی میں مباہلہ ہوگا۔''
 
خطوط کے تبادلوں کے دوران گلگت شہر کی صورتحال بھی کشیدہ ہوگئی اور شہر میں غیر یقینی کی فضا بننے لگی۔ صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی اور امن کمیٹی متحرک ہوگئی۔ صوبائی حکومت، انتظامیہ اور حساس ادارے حرکت میں آگئے، امن کمیٹی کے اراکین نے سید راحت حسین الحسینی اور قاضی نثار احمد سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ دوسری طرف صوبائی حکومت نے شاہی پولو گرائونڈ کو سیل کرتے ہوئے اطراف میں سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کر دی اور گلگت میں 23 مئی تک لاک ڈائون نافذ کر دیا۔ جمعہ کے روز شاہی پولو گرائونڈ جانے والی سڑکوں کو بند کر دیا گیا جبکہ شہر میں دن بھر موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی گئی۔ امن کمیٹی کے اراکین آغا اور قاضی کو مناظرے اور مباہلے سے دستبردار کرانے میں جمعہ کی رات کامیاب ہوئے، جس کے بعد دونوں کی جانب سے الگ الگ بیان جاری کیا گیا، جس میں مناظرے سے دستبردار ہونے کے ساتھ ساتھ دل آزاری پر ایک دوسرے کے مسلک کے لوگوں سے معذرت بھی کر لی گئی۔

پارلیمانی و امن کمیٹیوں کے اراکین کی پریس کانفرنس
آغا راحت حسین الحسینی اور مولانا قاضی نثار احمد کی جانب سے مناظروں اور مباہلوں سے دستبردار ہونے کے اعلان کے بعد امن کمیٹی کے اراکین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے قوم کو مبارک باد پیش کی اور مزید تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وزیر اطلاعات فتح اللہ خان نے پارلیمانی و امن کمیٹیوں کے اراکین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم اضطراب کا شکار تھی اور اس کرب میں ہم خود بھی مبتلا تھے، پارلیمانی اور امن کمیٹی کی کوششوں سے یہ کرب کی فضا ختم ہوئی۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ممبران مولانا سرور شاہ، ناصر زمانی، شاہ بیگ، ایڈووکیٹ اسلم، جوہر علی راکی، حیدر خان، الیاس صدیقی نے علاقے کے امن اور ہم آہنگی کیلئے چار پانچ روز سے تمام مکاتب فکر کے علماء سے شب و روز ان کی دہلیز پر جا کر مذاکرات کیے اور غلط فہمیوں کو دور کیا۔

صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ علماء اور دیگر اکابرین نے مشکل گھڑی میں مثبت کردار ادا کیا۔ خصوصاً آغا اور قاضی کے امن کے جذبات کو ہم نے دیکھا اور ہم نے دل کھول کر ان سے بات کی، انہوں نے دل کھول کر اپنا پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کیلئے یہ ایک بڑا امتحان تھا، کیونکہ ساری ذمہ داری حکومت کی تھی، وزیراعلیٰ نے تحمل مزاجی کے ساتھ سارے کیس کو دیکھا اور اس کے حل کیلئے مثبت کوششیں کیں، بلتستان، نگر، استور کے علماء کا اچھا پیغام ملا، بہت سارے علما گلگت تشریف لائے اور مثبت کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک حادثہ تھا، جس کو سنبھالا گیا ہے۔ مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہیں ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں نے بھی اہم کردار ادا کرتے ہوئے ہماری رہنمائی کی۔ گلگت بلتستان میں شیعہ، سنی، اسماعیلی بھائی بھائی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ساتھ ہی ہم ان مائنڈ سیٹ کو پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ اگر کسی نے اس مثبت پیشرفت کا مذاق اڑانے کی کوشش کہ تو اس کا دروازہ صرف اور صرف جیل ہوگا، ہمیں یہ علاقہ عزیز ہے، یہاں امن ہے تو سب کچھ ہے، ایسا نہیں ہوگا کہ ایک اچھی پیشرفت کو منفی سمت لے کر جائیں، سوشل میڈیا پر سائبر ایکٹ لاگو ہوگا اور ان عناصر کو ہر صورت سزا ملے گی۔

سابق نگران وزیر مولانا سرور شاہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چند لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ منفی سوچ ہمیشہ ان پر غالب رہتی ہے، اسی وجہ سے اچھی بات سے بھی کوئی نہ کوئی کیڑا نکال ہی لیتے ہیں، مثبت سوچ رکھنے والے لوگ اچھی بات کو بہتر سے بہتر جگہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو فرقوں کے علاوہ دنیا میں کئی اور بھی فرقے ہیں، لیکن کہیں ایسا نہیں ہوتا جو یہاں ہو رہا ہے، ہم ان صورتحال اور حالات کا ملبہ کبھی مولویوں اور کبھی ایجنسیوں پر ڈال دیتے ہیں، کبھی اپنے گریباں پر نظر نہیں ڈالتے کہ ہمارا کتنا حصہ ہے، ہم اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر سمجھتے ہیں، دوسرے کو برے سے برا سمجھتے ہیں، جس کا نتیجہ فرقہ واریت کی شکل میں نکل آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مشکور ہوں کہ اس نے صبر سے کام لیا اور ہمیں بھی سنانے اور سننے کا موقع فراہم کیا۔

انہوں نے کہا کہ جس طریقہ سے مذہبی قیادت نے ہماری بات مانی، اس پر مشکور ہوں، کیونکہ مذہبی قیادت کے پیچھے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں، جن میں جذباتی لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، ہمارے قائدین آغا راحت اور قاضی نثار ہمارے ساتھ تعاون نہ کرتے تو ہم آج آپ کے سامنے نہیں ہوتے۔ سابق نگران وزیر شیخ ناصر زمانی نے کہا کہ 2012ء کے ضابطہ اخلاق جو کہ ایکٹ بن چکا ہے، پر عملدرآمد ابھی تک نہیں ہوا، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کرائے، تاکہ گلگت کا امن برقرار رہے۔ علمی میدان میں بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہ اخلاق کے دائرے میں ہونا چاہیئے، قاضی اور آغا نے کھلے دل کے ساتھ تعاون کیا اور انہوں نے عوام کو سنبھالا، ہم ایک حساس خطے میں رہتے ہیں، علماء سے گزارش کرونگا کہ عوام کو امن کا پیغام دیں اور نئی نسل کی اخلاقی تربیت کریں۔

مساجد بورڈ کو فعال بنانے کا فیصلہ
صوبائی حکومت نے گلگت شہر میں مساجد بورڈ کو دوبارہ فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اگلے چند ہفتوں میں اس فیصلے پر باقاعدہ عملدرآمد کرایا جائے گا اور گلگت شہر کی دونوں بڑی مساجد مرکزی امامیہ جامع مسجد اور مرکزی جامع مسجد اہل سنت کا کنٹرول مساجد بورڈ کے حوالے کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق گلگت شہر کی حالیہ صورتحال کے بعد حکومت نے مساجد بورڈ کو دوبارہ فعال بنانے کیلئے اقدامات شروع کیے ہیں اور دونوں مساجد کیلئے الگ الگ بورڈ بنایا جا رہا ہے اور صوبائی حکومت اور انتظامیہ نے مساجد بورڈ کے ممبران کے انتخاب کیلئے باقاعدہ مشارت شروع کر دی ہے۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ کے دور حکومت میں اہلسنت مساجد بورڈ اور اہل تشیع مساجد بورڈ کے نام سے الگ الگ مساجد بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔

اہل سنت مساجد بورڈ نے باقاعدہ مرکزی جامع مسجد اہلسنت کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا، مگر اہل تشیع علماء نے مرکزی امامیہ جامع مسجد گلگت کا کنٹرول مساجد بورڈ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا، یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتا رہا، مہدی شاہ حکومت کے خاتمے کے بعد سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن نے مساجد بورڈ کو نظر انداز کر دیا، جس کے بعد اہل سنت کے علماء نے بھی مرکزی جامع مسجد سے اہل سنت مساجد بورڈ کو بے دخل کرکے کنٹرول اپنے قبضے میں لے لیا، جس کے نتیجے میں مساجد بورڈ ختم ہوگئے، اب گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد پے درپے ہونے والے واقعات اور شہر کی کشیدہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں بڑی مساجد کا کنٹرول مساجد بورڈ کو فعال کرکے ان کے حوالے کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ اہل سنت مساجد بورڈ اور اہل تشیع مساجد بورڈ کے ممبران کے انتخابات کیلئے صوبائی حکومت اور انتظامیہ نے مشاورت بھی شروع کر دی ہے۔
خبر کا کوڈ : 933907
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش