0
Friday 8 Feb 2013 23:47

جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کی باہمی چپقلش، ایم ایم اے کی بحالی خواب بن گیا

جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کی باہمی چپقلش، ایم ایم اے کی بحالی خواب بن گیا
ایک طرف ملک میں نئے انتخابات ہونے ہیں تو دوسری طرف طویل ترین کاوشوں کے باوجود مذہبی جماعتوں کے غیر فعال اتحاد متحدہ مجلس عمل کی مکمل بحالی کا باب بند ہو گیا ہے۔ جس کا اظہار اور اعتراف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے گذشتہ روز ایک خطاب میں کیا۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سید منور حسن نے بھی ایم ایم اے کی بحالی یا جماعت اسلامی کے مجلس عمل میں شمولیت کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایم ایم اے اب قصہ پارینہ بن چکی ہے، واضح رہے کہ گذشتہ سال دینی جماعتوں کے اس اتحاد کو بحال کرنے کی کوششوں میں تیزی آ گئی تھی، اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی کے رہنما و سابق امیر قاضی حسین احمد پیش پیش تھے، ایسا لگتا تھا کہ اس غیر فعال اتحاد کو بحال کرنے میں کامیابی یقینی ہو گی، لیکن اتحاد کی بحالی کی خواہش رکھنے والوں کی امیدیں پوری نہ ہو سکیں۔ 

1999ء میں (ریٹائرڈ) جنرل مشرف نے جمہوریت کی بساط لپیٹتے ہوئے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے عنان حکومت سنبھالی۔ اس کے بعد 2002ء میں جنرل پرویز مشرف نے انتخابات منعقد کرائے اور خود ریفرنڈم کے ذریعے عہدہ صدارت پر فائز ہو گئے، اس وقت کے سیاسی حالات کچھ ایسے تھے کہ عوام جمہوری حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے تھے اور کسی مسیحا کی تلاش میں تھے۔ اس دوران ملک کے مذہبی رہنماؤں نے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل کی صورت میں قائم کیا، جس کے صدر جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی جبکہ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اسی پلیٹ فارم سے ملک بھر میں اپنے امیدوار نامزد کرکے انتخابات میں حصہ لیا۔ 2002ء کے انتخابات نے ملکی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا اور دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی ایک وجہ تو یہی ہو سکتی ہے کہ دونوں پارٹیوں کے قائدین نواز شریف اور بینظیر بھٹو پر مقدمات قائم کرکے انہیں انتخابات کے لئے نااہل قرار دیا گیا جب کہ دوسری طرف عوام کو متحدہ مجلس عمل کی صورت میں نئی قیادت مل گئی۔

2002ء کے انتخابات میں قوم نے اس اتحاد کو بھرپور مینڈیٹ دیا اس وقت کے صوبہ سرحد میں اس کے نامزد کردہ امیدواران قومی و صوبائی اسمبلیوں نے کلین سوئپ کیا، اس طرح متحدہ مجلس عمل نے صوبے میں بغیر کسی دشواری کے حکومت قائم کرلی۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے اقتدار کے پانچ سال مکمل کئے، اس کے بعد 2008ء کے انتخابات کے موقع پر متحدہ مجلس عمل میں شامل دو بڑی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) میں جنرل مشرف کے اقتدار کو دوام دینے کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوئے، جس پر جماعت اسلامی کے ممبران پارلیمنٹ مستعفی ہو کر حکومت سے الگ ہو گئے اور انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ اس طرح انتخابات سے پہلے ہی یہ اتحاد ٹوٹ گیا تاہم اس کی باقاعدہ تحلیل کا اعلان نہیں کیا گیا۔

2007ء کے اوآخر میں باہمی اختلافات کا شکار ہو کر غیر فعال ہونے والے مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد کی بحالی کے لئے گذشتہ تین چار برسوں کے دوران کئی بار سنجیدہ کوششیں ہوئیں، تاہم دونوں بڑی جماعتوں کے سخت گیر موقف رکھنے والے عناصر اس کی بحالی کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔ جب تک متحدہ مجلس عمل کے سابق سربراہ اور جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد حیات تھے تو ایم ایم اے کی بحالی کی تھوڑی بہت امید پھر بھی باقی تھی، تاہم جس دن قاضی حسین احمد کا انتقال ہوا تو اس کے ساتھ ہی سنجیدہ فکر حلقوں نے کہہ دیا تھا کہ اب ایم ایم اے کی بحالی ممکن نہیں ہو سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت مذہبی قوتیں چار پانچ خانوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جماعت اسلامی چونکہ طویل عرصے کے بعد اپنے نام سے انتخابات میں کودنے کے لئے تیار ہے، لہٰذا وہ اس وقت کسی انتخابی اتحاد کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور اس نے صرف ایڈجسٹمنٹ کے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 237981
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش