0
Friday 27 Jun 2014 22:43

آئی ڈی پیز اور حکومت کی دیگر ذمہ داریاں

آئی ڈی پیز اور حکومت کی دیگر ذمہ داریاں
تحریر: طاہر یاسین طاہر

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں نے ریاست کی عملداری کو چیلنج کیا، جس کے باعث لوگ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے، وسائل کی کوئی کمی نہیں، آئی ڈی پیز کو تمام سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ وزیراعظم نواز شریف آپریشن "ضرب عضب" میں حصہ لینے والے فوجی افسروں اور جوانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے جمعہ کو بنوں پہنچے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور کور کمانڈر پشاور خالد ربانی نے وزیراعظم نواز شریف کا استقبال کیا۔ گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب عباسی، وزیر اطلاعات پرویز رشید اور وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ وزیراعظم نے آپریشن ضرب عضب میں حصہ لینے والے فوجی افسروں اور جوانوں سے ملاقات کی۔ پاک فوج کے افسران نے وزیراعظم کو آئی ڈی پیز کے مسائل پر بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے نقل مکانی کرنے والوں کے کیمپوں کا بھی دورہ کیا، وزیراعظم نے آئی ڈی پیز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں نے ریاست کی عملداری کو چیلنج کیا جس کے باعث لوگ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ وسائل کی کوئی کمی نہیں، آئی ڈی پیز کو تمام سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نقل مکانی کرنے والوں کی تکلیف کا ادراک ہے، گھر چھوڑنا آسان کام نہیں۔ متاثرین کی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے مزید کہا کہ آپریشن ختم ہونے کے بعد آئی ڈی پیز کو مکمل طور پر بحال کیا جائے گا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے آئی ڈی پیز کیلئے رمضان المبارک میں بیس ہزار روپے اضافی امداد کا بھی اعلان کیا۔

دریں اثنا وزیرِاعظم کے دورے کے موقعے پر بنوں کینٹ کے علاقے میں سکیورٹی انتہائی سخت کی گئی تھی اور شہر میں زیادہ نقل و حمل پر پابندی تھی۔ مقامی صحافیوں کے مطابق شہر بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کو مسائل کا سامنا رہا۔ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوج کی طرف سے جاری آپریشن ضرب عضب شروع ہوئے دو ہفتے ہونے کو ہیں۔ اس آپریشن کی وجہ سے شمالی وزیرستان کی چھ تحصیلوں سے چار لاکھ سے زائد افراد نے نقل مکانی کی ہے۔ متاثرین کے لیے حکومت کی طرف سے ایف آر بکاخیل کے علاقے میں ایک کیمپ بنایا گیا ہے لیکن انتظامات کے فقدان کے باعث وہاں اب تک صرف 100 کے قریب افراد نے پناہ لی ہے۔ زیادہ تر متاثرہ خاندان بنوں اور آس پاس کے اضلاع میں اپنے طور پر کرائے کے مکانات، رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ادھر پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن بلا کسی امتیاز کے تمام شدت پسندوں گروپوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آپریشن میں اچھے طالبان یا برے طالبان کا امتیاز نہیں رکھا جا رہا ہے بلکہ یہ سب کے خلاف ہو رہا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران اب تک 327 عسکریت پسند مارے گئے ہیں جب کہ اس دوران دس سکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوچکے ہیں۔

ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ سوات کے آئی ڈی پیز سے لے کر جنوبی وزیرستان و شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز تک، درمیان میں کچھ ایسے لمحات بھی آئے جب حکومت اگر چاہتی تو دہشت گردی کے معاملے کو اس انداز میں ہینڈل کر لیتی کہ اس بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی نہ کرنا پڑتی، لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ جب بھی دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج نے آپریشن کیا، اور اس آپریشن کے نتیجے مین سول آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی تو، حکومتوں اور مخیر حضرات نے آئی ڈی پیز کی طرف سے کبھی آنکھیں نہیں پھیری ہیں۔ عمومی طور پر یہ بھی ہوتا ہے کہ جب دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن ہوتا ہے اور آپریشن سے پہلے ریاست کی جانب سے کچھ ایسی تیاریاں کی جاتی ہیں، جن سے دہشت گردوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی ہونے والی ہے، تو عام آبادی کے ساتھ گاہے دہشت گرد بھی حلیہ بدل کر اپنی کمین گاہوں سے نکل کر شہری آبادیوں کا رخ کرتے ہیں۔ حکومت کا جہاں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ آئی ڈی پیز کی کمیپوں میں آبادکاری بہترین انتظام کے تحت ہو، وہاں حکومت کو یہ بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ان عام شہریوں کے ساتھ دہشت گرد بھی کہیں شمالی وزیرستان سے نکل کر بنوں اور دیگر شہروں میں آئی ڈی پیز کے کیمپوں تک نہ پہنچ پائیں۔ 

یہ دیکھا گیا ہے کہ جب سوات کے آئی ڈی پیز کو کیمپوں میں بسایا گیا تو حکومت مخالف سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتوں نے بڑا واویلا کیا کہ حکومت ’’امریکی خوشنودی‘‘ کے لیے اپنے ہی شہریوں پر بم برسا کر انھیں گھروں سے بے گھر کر رہی ہے۔ موجودہ حکومت کو بھی اس طرح کی سیاست کاری کا سامنا کرنا پڑے گا، بلکہ عمران خان تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے عام آبادی کے انخلا تک آپریشن ضربِ عضب روک دینا چاہیے۔ مگر حکومت کو ایسی باتوں پر توجہ کرنے کے بجائے ان امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن سے یہ آپریشن جلد از جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچے۔ پوری قوم اس وقت دہشت گردوں سے چھٹکارا چاہتی ہے اور پوری قوم اس جنگ میں پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ قوم کا البتہ مطالبہ یہی ہے کہ اب آخری دہشتگرد کے مرنے تک فوج یہ آپریشن جاری رکھے اور نہ صرف شمالی وزیرستان بلکہ پاکستان کے ان علاقوں میں بھی آپریشن کیا جائے جن علاقوں میں طالبان کے’’سلیپرز‘‘ آرام فرما ہیں۔ 

یہاں حکومت کو ایک اور مسئلے کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور وہ یہ کہ آئی ڈی پیز کا کوئی بھی فرد کسی بھی دوسرے شہر میں اپنے کسی عزیز، رشتہ دار کے پاس اس وقت تک نہ پہنچے جب تک کہ اس کی رجسٹریشن آئی ڈی پیز کیمپ میں بطورِ آئی ڈی پی نہ ہوجائے۔ بے شک وفاقی حکومت پر آئی ڈی پیز کے حوالے سے دباؤ بھی بڑھے گا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دباؤ اس دباؤ سے کہیں کم ہوگا، جو دباؤ دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے حکومت پر تھا۔ اب جبکہ پاک فوج وطنِ عزیز کو دہشت گردون سے پاک کر رہی ہے تو حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ سراج الحق، حافظ سعید، پی ٹی آئی اور طالبان نواز گروہوں کے کسی دباؤ میں نہ آئے بلکہ ایسے گروہوں کے حوالے سے حکومت سیاسی میدان میں جارحانہ رویہ اپنائے۔
خبر کا کوڈ : 395619
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش