0
Tuesday 4 Oct 2011 20:40

واشنگٹن کا جوہری ہتھیاروں سے مسلح، 18کروڑ عوام اور سخت فوج کے حامل ملک پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینا انتہائی حماقت ہے، امریکی اخبار

واشنگٹن کا جوہری ہتھیاروں سے مسلح، 18کروڑ عوام اور سخت فوج کے حامل ملک پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینا انتہائی حماقت ہے، امریکی اخبار
کراچی:اسلام ٹائمز۔ امریکی اخبار "ہفنگٹن پوسٹ" کے مطابق افغانستان میں امریکی سی آئی اے کے انٹیلی جنس ذرائع پاکستان کے دشمن ہیں، پاکستان کے خلاف جنگ کی امریکی دھمکی حماقت کی انتہا ہے، پاکستان کوئی کیک نہیں، پاکستانیوں کے نزدیک بھارت نہیں امریکا سب سے بڑا دشمن ہے، افغانستان کی خونی اور ٹریلین ڈالر جنگ میں خطرناک غلطیوں کو امریکا کبھی تسلیم نہیں کرے گا، امریکی ہائی ٹیک فوج مٹھی بھر قبائلیوں سے شکست کھا رہی ہے، پاکستان پر کسی بھی قسم کی امریکی کارروائی چین کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ کھول سکتی ہے، افغانستان میں امریکی جنگ پاکستان کو غیر مستحکم کرے گی اور جوہری تصادم کے خطرات بڑھیں گے، یہ امریکی پاگل پن کی انتہا ہے کہ واشنگٹن جوہری ہتھیاروں سے مسلح پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ امریکی اخبار "ہفنگٹن پوسٹ" کے مضمون کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا کیلئے تسلیم کرنا انتہائی مشکل ہے کہ اس کی ہائی ٹیکنالوجی کی حامل افواج افغانستان میں شکست سے دوچار ہیں اور اس کی شکست پہاڑوں کے مٹھی بھر قبائلی ہیں جن کے پاس ہلکی نوعیت کے حامل ہتھیار ہیں اور جنہیں دہشت گرد سمجھ کر مسترد کیا گیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ سلطنتوں کے قبرستان (افغانستان) میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے واشنگٹن اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کرسکتا اور نہ کبھی کرے گا کہ اس نے افغانستان کی خونی اور ٹریلین ڈالر کی جنگ میں خطرناک غلطیاں کی ہیں، اس وقت پاکستان امریکی غیض و غضب کا شکار ہے اگرچہ ابھی تک سرکاری طور پر امریکا پاکستان کو اسٹریٹجک اتحادی کہتا ہے۔
اخبار کے مطابق گزشتہ ہفتے سبکدوش ہونے والے امریکی جوائنٹ چیفس کے چیئرمین ایڈمرل مائیک مولن نے افغانستان میں امریکی اہداف کے خلاف حملوں کا الزام آئی ایس آئی پر لگایا۔ کابل میں امریکی سفارت خانے پر طالبان مجاہدین کی طرف سے حملے نے 1968ء کی ویت نام جنگ کے خوفناک خواب کی یاد تازہ کر دی۔ مضمون کے مطابق افغانستان کے بارے میں سی آئی اے کے انٹیلی جنس کے دو ذرائع intercepts electronic اور افغان حکومت کی انٹیلی جنس سروس ہے، امریکا مخالف جنگ جو زیادہ تر الیکٹرانک مواصلاتی نظام کو استعمال نہیں کرتے، وہ جانتے ہیں کہ آسانی سے امریکی مصنوعی سیارے، طیارے، ڈرونز، بحری جنگی طیارے اور زمینی اسٹیشنز ان کی گفتگو کو پکڑ سکتے ہیں، افغان حکومت کی انٹیلی جنس سروس میں تاجک کمیونسٹوں کا غلبہ ہے جنہیں پرانی سوویت یونین کی انٹیلی جنس خاد نے تشکیل دیا تھا اور یہ پاکستان اور پشتونوں کے جانی دشمن ہیں، امریکی فوج اور سویلین انٹیلی جنس کے لیے افغان ذرائع سے حاصل معلومات ڈس انفارمیشن کا بنیادی ذریعہ بن چکی ہیں، انہی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایس آئی حال ہی میں افغانستان میں امریکی اہداف پر حملوں کے پیچھے تھی، امریکی انٹیلی جنس اسی طرح 2003ء میں عراق میں دوستانہ انٹیلی جنس سروس کے ہاتھوں گمراہ ہوئی تھی۔ اخباری مضمون میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن نے پاکستان پر غصے کے ساتھ غیر محتاط ردعمل کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین کے 1989ء کی شکست کی مثال تیزی سے واشنگٹن کی پریشانی کا باعث بن رہی ہے، اوباما انتظامیہ کے کسی بھی سینئر رکن کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگی کا علم نہیں، واشنگٹن میں کچھ ماہرین ان تعلقات کی اہمیت سے واقف ہیں لیکن وہ عادت کے مطابق انہیں نظر انداز کر رہے ہیں، ایسا طرز عمل عراق کے ساتھ بھی کیا گیا۔ 
اخبار کے مطابق 18کروڑ عوام اور سخت فوج کے حامل ملک پاکستان کے خلاف جنگ کی دھمکی حماقت کی انتہا ہے، ویت نام کے بعد امریکی فوج نے کسی بھی سخت زمینی طاقت کا سامنا نہیں کیا، پاکستان کیک کی طرح نہیں اور نہ ہی یہ آسان ثابت ہو گا، پاکستان افغانستان میں امریکا اور اتحادی افواج کیلئے رسد کا اہم راستہ ہے، زیادہ تر پاکستانی اب بھارت کی بجائے امریکا کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ یہ بھی پاگل پن کی انتہا ہے کہ واشنگٹن جوہری ہتھیاروں سے مسلح پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے جو چین کا ایک بہت قریبی اتحادی ہے، چین خود بھی ایک اہم جوہری طاقت ہے، اب تک بیجنگ محتاط طریقے سے پاکستان کے ساتھ حمایت کر رہا ہے، لیکن سی آئی اے کے پاکستان پر ڈرونز حملوں سے آگے پاکستان پر کسی بھی قسم کی امریکی کارروائی چین کے ساتھ محاذ آرائی کا راستہ کھول سکتی ہے، چین کی خاموشی نے امریکا پر واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی امریکی محاذ آرائی کی اجازت نہیں دے گا، مزید پاگل پن یہ ہے کہ بش اور اوباما دونوں ہی کے دور حکومت میں امریکا افغانستان میں بھارت کی فوجی مداخلت کی کوشش چاہتا ہے لیکن بھارت افغانستان میں جنگ کیلئے اپنے فوجی کبھی نہیں بھیجے گا۔
اخبار کے مطابق واشنگٹن نے بھارت کو ہری جھنڈی دکھائی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف تاجک، ازبک اور ہزارہ اقلیتوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے انٹیلی جنس ایجنٹس اور پیسہ فراہم کرے، امریکا بے تابی سے بھارت کو جوہری ہتھیاروں کے لیے مدد فراہم کر رہا ہے، ان جوہری ہتھیاروں کے صرف دو اہداف پاکستان اور چین ہی ہیں، ان سب نے اسلام آباد میں خطرے کی گھٹنیاں بجا دی ہیں، روس اور چین بھی اس بڑھتی ہوئی بے چینی کا ڈرامہ دیکھ رہے ہیں جو اسلامی عسکریت پسندوں اور امریکی اتحادیوں کے درمیان بٹ چکا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے اسٹریٹجک مفادات اکثر متنازع ہیں اور مختلف ہیں، جب تک افغانستان میں امریکا کی جنگ جاری رہتی ہے تو یہ یقیناً پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا خطرہ رہے گا اور جوہری تصادم کے خطرات بھی مزید بڑھ سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 103742
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش