0
Saturday 22 Feb 2014 21:27

سنی اتحاد کونسل نے پاک فوج کو دہشت گردوں کیخلاف فری ہینڈ دینے کا مطالبہ کر دیا

سنی اتحاد کونسل نے پاک فوج کو دہشت گردوں کیخلاف فری ہینڈ دینے کا مطالبہ کر دیا
اسلام ٹائمز۔ سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے پانچ سو سے زائد علماء و مشائخ کے دستخطوں کے ساتھ وزیراعظم پاکستان کو خصوصی خط ارسال کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت ریاست مخالف دہشت گردوں سے مذاکرات ختم کرنے کا دوٹوک اعلان کرے اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے ریاست کے باغیوں کیخلاف ملک گیر آپریشن کا فیصلہ کیا جائے۔ پاک فوج کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فری ہینڈ دیا جائے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر متفقہ نیشنل سکیورٹی پالیسی وضع کی جائے۔ پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے دہشت گردوں کے حامیوں، ہمدردوں اور سرپرستوں کو ریاستی گرفت میں لایا جائے اور پورے ملک میں ریاستی رٹ قائم کرنے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کیے جائیں۔ پچاس ہزار شہداء کے قاتلوں سے مذاکرات شریعت اور آئین کے منافی ہیں۔ پاک فوج، ایف سی اور پولیس کے افسروں اور جوانوں کے قتل کا بدلہ لینا حکومت پر قرض اور فرض ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان پر شرعی مقدمہ چلایا جائے اور طالبان سے پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قتل کا قصاص طلب کیا جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی مصلحتوں اور بزدلی کی وجہ سے دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور مذاکرات کے اعلان کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے اب حکومت گومگو کی پالیسی چھوڑ کر پاکستان بچانے کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھائے۔ حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ کے آئینی تقاضے پورے کرے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو نتیجہ خیز بنایا جائے اور کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے کیونکہ ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے دہشت گردوں کو سبق سکھانا ضروری ہو گیا ہے اور ملکی سلامتی سے کھیلنے والے باغیوں اور انتہاپسندوں کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔ فوجیوں کے گلے کاٹنے والے کسی رحم اور رعایت کے مستحق نہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث مکتبۂ فکر کو ریاستی سطح پر غیر معمولی اہمیت دے کر دوسرے مکاتبِ فکر میں احساسِ محرومی پیدا کیا جا رہا ہے۔ ریاستی ادارے ملک کے غداروں اور وفاداروں کو پہچانیں۔ مساجد، مدارس، مزارات، ہسپتالوں، مارکیٹوں، جنازوں، پولیو ورکرز، غیرملکی کھلاڑیوں اور سیاحوں پر حملے کرنے والے گمراہ ہی نہیں ملک و اسلام دشمن بھی ہیں۔ ریاست کے باغیوں کو پاکستان کے بیٹے قرار دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

رہنماؤں نے کہا ہے کہ غیر ملکی ایجنسیوں کے نیٹ ورک کا صفایا کیا جائے اور پاکستان میں بیرونی مداخلت روکی جائے، طالبان کے ایک تہائی کراچی پر کنٹرول اور اسلام آباد میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی اطلاعات تشویشناک ہیں۔ طالبان کو سرکاری طور پر غدارانِ پاکستان قرار دیا جائے اور ریاستی اداروں کو طالبان نواز عناصر سے پاک کیا جائے۔ طالبان ریاست کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ دہشت گرد مذاکرات کے ذریعے صرف وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حکومت کو مذاکرات میں الجھا کر خود دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ دہشت گردوں سے مذاکرات ختم کر کے آپریشن شروع کرنے کا دوٹوک اعلان نہ کیا گیا تو ملک گیر احتجاج کی کال دی جائے گی اور تمام شہروں میں لامحدود مدت کے لیے دھرنے دیں گے۔ اب امن کے لیے جنگ ضروری ہو چکی ہے۔ مذاکرات اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ مذاکرات سے امیدیں وابستہ کرنا بیوقوفی ہے۔ حکومت دہشت گردوں کو شہید قرار دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ حکومت کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گردوں اور مجرموں کے دلوں سے سزا کا خوف ختم ہو گیا ہے اس لیے حکومت دہشت گردوں کو سنائی گئی سزاؤں پر عملدرآمد یقینی بنائے اور طالبان سے شرعی قانون کے تحت خودکش حملوں میں شہید ہونے والوں کے جان و مال کا حساب مانگا جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ملک میں شریعت نافذ کی جائے کیونکہ شریعت کے مکمل نفاذ سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ شریعت نافذ ہو گئی تو طالبان سزاؤں سے بچ نہیں سکیں گے۔ طالبان شریعت کے حامی نہیں باغی ہیں۔ طالبانی شریعت قرآن و سنّت سے متصادم ہے اور نفاذِ شریعت کے لیے بندوق کا استعمال خلافِ اسلام ہے۔ علمائے اہلسنّت طالبان کے گمراہ کن فہمِ شریعت کو مسترد کرتے ہیں۔ قانونِ قصاص پر مکمل عمل سے قتل ناحق کو روکا جا سکتا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت پچاس ہزار سے زائد شہداء کے خاندانوں کے غم و غصے کو محسوس کرے۔ دہشت گردی کے متاثرین کا غم و غصہ طوفان بننے والا ہے۔ ریاست کے باغیوں کو گلے لگانے کے نتائج خطرناک اور خوفناک ہوں گے۔ امن کا جھنڈا اٹھانے والے ہی ملک کا اصل اثاثہ ہیں۔ فسادیوں کو اثاثہ سمجھنے کی ریاستی سوچ چھوڑنا ہو گا۔ طالبان کا امیر افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ طالبان کے بھارت اور امریکہ کے ساتھ روابط بھی کھلی حقیقت ہیں۔ طالبان ہر روز آئین کے پرزے اڑاتے ہیں اور ملکی قوانین کو روندتے ہیں۔ آئین میں دہشت گردوں اور باغیوں سے مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں۔ کالعدم قرار دی گئی تنظیم سے مذاکرات آئین کے منافی ہیں۔ حکومت دہشت گردی کے متاثرین کو دیوار کے ساتھ اور دہشت گردوں کو گلے سے لگانے کی پالیسی چھوڑ دے۔

علما کا کہنا ہے کہ ایٹمی ریاست کا مٹھی بھر دہشت گردوں کے سامنے جھک جانا افسوسناک ہے۔ ریاست کے باغیوں کی نازبرداریاں ختم کی جائیں۔ اس طرزعمل سے مزید بغاوتوں کا دروازہ کھلے گا۔ دہشت گردی کے ناسور کو مزید پھیلنے کی مہلت نہ دی جائے۔ اب آپریشن کے بغیر دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں رہی۔ حکمران دہشت گردوں کے خوف میں مبتلا ہیں تو استعفے دے کر گھر چلے جائیں اور بے گناہوں کا خون اپنے سر نہ لیں۔ مذاکرات کی ہر حکومتی پیشکش کا جواب دہشت گردی میں اضافے کی صورت میں ملا ہے۔ ملکی سلامتی کے دشمن بیرونی عناصر کو دہشت گردوں کے پیدا کردہ حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے اور دہشت گردی کے باعث پیدا ہونے والے خوف و ہراس کی فضا میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کا عمل رک گیا ہے۔ اس لیے ملکی ترقی اور استحکام کے لیے ہر طرح کے دہشت گردوں کی سرکوبی ضروری ہو چکی ہے۔ حکومت امریکہ نواز پالیسیاں ختم کرے اور امریکی دباؤ سے آزاد ملکی مفاد میں نئی خارجہ پالیسی تیار کی جائے۔ طالبان دہشت گردی میں اضافہ کر کے ریاستی اتھارٹی پر غالب آنے کا تاثر پیدا کر رہے ہیں جو ایک آزاد اور خودمختار ایٹمی مملکت کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اب دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔

خط پر جن علماء و مشائخ نے دستخط کیے ہیں ان میں علامہ محمد شریف رضوی، مفتی محمد اکبر رضوی، پیر سیّد محمد اقبال شاہ، مفتی محمد سعید رضوی، صاحبزادہ عمار سعید سلیمانی، مفتی محمد حسیب قادری، طارق محبوب، پیر طارق ولی چشتی، پیر میاں غلام مصطفی، صاحبزادہ مطلوب رضا، صاحبزادہ حمید الدین رضوی، علامہ حامد سرفراز، مفتی محمد یونس رضوی، علامہ شرافت علی، علامہ باغ علی رضوی، علامہ فیصل عزیزی، علامہ محمد اشرف گورمانی، مفتی محمد رمضان جامی، مفتی شعیب منیر، مفتی لیاقت علی، مفتی محمد حسین صدیقی، مولانا وزیرالقادری، مولانا محمد اکبر نقشبندی، علامہ فاروق سلطان، علامہ قاضی محمد یعقوب رضوی، مولانا قاری فیض بخش رضوی، مفتی محمد کریم خان، علامہ ارشد مصطفائی، صاحبزادہ محمد سلیم ہمدمی، سیّد جوادالحسن کاظمی، علامہ نعیم الدین، مولانا غلام سرور حیدری، علامہ سیّد خرم ریاض شاہ، مولانا محمد علی نقشبندی، علامہ منظورعالم سیالوی اور دیگر شامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 354505
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش