2
3
Monday 10 Jul 2023 18:45

جانشین پیغمبرؐ کا تعیّن(2)

جانشین پیغمبرؐ کا تعیّن(2)
تحریر: نذر حافی

گذشتہ قسط میں ہم نے محترم یوسف رضا دھنیالہ صاحب کے سوالات کے جوابات دیئے ہیں۔ اب ذرا میرے اور رائے یوسف رضا دھنیالہ صاحب کے نکتہ نظر سے بھی ہٹ کر آزادانہ سوچئے! آئیے نبی اکرم ؐ کے جانشینی کے مسئلے کو آزادانہ طور پر دیکھنے کی کوشش کیجئے:
۱۔ اصلاحی زاویہ
مسلمانوں کے ہاں دو چیزیں حرفِ آخر اور کامل ہیں۔ ۱۔ اللہ کی کتاب قرآن مجید ۲۔ اللہ کے آخری رسولﷺ۔ یہ کسی اقلیت یا اکثریت کا کہنا نہیں بلکہ یہ سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ اس وسیع و عریض دنیا میں ہر مسلمان سے ایک سوال ہے کہ کیا نبی ؐ کی بعثت اور نزولِ قرآن کا مقصد انسانوں کی اصلاح ہے، یا نعوذ باللہ انسان ان کی اصلاح کریں گے۔؟ بلاشُبہ ہر مسلمان یہ جواب دے گا کہ قرآن مجید اور نبی ؐہر طرح کے نقائص، کوتاہی، غفلت اور عیب سے پاک ہیں۔ یہ انسانوں کی اصلاح کیلئے ہیں۔ بس اس زاویئے سے ایک بات تو طے ہوگئی کہ اللہ کی آخری کتاب اور اللہ کے آخری نبیﷺ نے ہماری اصلاح کرنی ہے نہ کہ نعوذ باللہ ہم نے ان کی اصلاح کرنی ہے۔ اس زاویئے سے یہ بات واضح ہے کہ نبی اکرم ؐ کے بعد معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت نبیؐ کے جانشین کی تھی۔ اگر نبی پاکؐ اس ضرورت کو پورا نہیں کرتے تو اصلاحی و تبلیغی لحاظ سے یہ ایک بہت بڑی کمی محسوب ہوگی، جبکہ نبی ؐ نے اپنی تبلیغ میں کوئی کسر اور کمی نہیں چھوڑی۔

۲۔ وعدہ وفائی کا پہلو
حضورؐ کو دنیا صادق و امین جیسے القابات سے پہچانتی ہے۔ حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان نبی ؐ نے کئی مرتبہ کیا ہے۔ خصوصاً دعوتِ ذولعشیر میں جو کہ  اسلام کی سب سے پہلی دعوت ہے، اسی میں ہی پیغمبر اسلام ؐ نے یہ اعلان کیا تھا کہ آج کے دن جو میری تصدیق کرے گا، وہی میرا جانشین، وصی اور خلیفہ ہوگا۔ بعد ازاں میدانِ غدیر میں اُسی اعلان کا اعادہ کیا گیا اور صادق و امین پیغمبر نے اپنے اُسی پہلے اعلان کو میدانِ غدیر میں پورا کر دکھایا۔ اس زاویئے سے حدیثِ غدیر یہ ثابت کرتی ہے کہ نبی ؐ کی ذات اتنی کامل، صادق اور امین تھی کہ آپ نے اپنی پہلی دعوت دین، دعوتِ ذوالعشیر میں اپنے کئے ہوئے جانشینی کے وعدے کو پورا کرنے کا اعلان میدانِ غدیر میں کیا۔

۳۔ ختمِ نبوّت کی ضمانت
قرآن مجید کی آیت: "اَلْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الْإِسْلامَ دیناً"، "آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے۔"[1] سنی و شیعہ کا اتفاق ہے کہ یہ آیت روز عید غدیر، حدیثِ غدیر "من کنتُ مولاہ فھذا علی مولا" (جس کا میں ؐمولا اُس کا علی ؑمولا) کے اعلان کے بعد نازل ہوئی اور اس حدیث و آیت کے اعتبار سے جانشینی کے اعلان کے ساتھ دین مکمل ہوچکا ہے۔ اس رو سے دیکھیں تو حدیث غدیر دراصل تکمیل دین کی مہر ہے۔ یہ حدیث ختمِ نبوّت کی دلیل ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ اب نبی کا جانشین امور کو چلائے گا۔

۴۔ منصوبہ سازی کی جہت
اب ایک گہرا سانس لیجئے اور یہ بتائیے کہ ہم پیغمبرِ اسلام ؐکو  ایک عاقل ترین، کامل ترین، عقلِ کُل اور ذہین ترین انسان سمجھتے ہیں یا نہیں۔؟ توجہ رہے کہ یہ جو اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید ہے، یہ حرف بحرف وہی کتاب ہے، جو ہمارے پیغمبرؐ پر نازل ہوئی تھی اور یہی کتاب ہمارے پیغمبرؐ کے پاس تھی۔ انہوں نے اسی کتاب سے گمراہوں کو ہادی بنایا، جاہلوں کو عالم بنایا، قاتلوں اور وحشیوں کو انسان بنایا۔۔۔ یہی کتاب آج ہم سارے مسلمانوں کے پاس بھی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کتاب کے باوجود ہم ساری دنیا میں عقب ماندہ اور پسماندہ ہیں۔؟ یہی قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تدبیر کرنا سُنّتِ الہیٰ اور سُنّت انبیاء ہے۔ "وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيرُ الماكِرينَ" یہودیوں نے حضرت عیسی ٰؑ کے حوالے سے ایک چال چلی اور اللہ نے بھی ان کی چال کا توڑ کیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑنے مشرکین کے بت توڑ کر اُن سے کہا کہ یہ جو بڑا بُت ہے، اس سے پوچھو کہ یہ کارروائی کس نے کی ہے۔؟ یہ مشرکین کے دماغوں کو بیدار کرنے کیلئے حضرت ابراہیم کی تدبیر تھی۔

پیغمبرِ اسلام ؐ کائنات کے ذہین ترین انسان ہیں۔ آپ نے صرف تئیس سال کے عرصے میں ایسی بصیرت اور منصوبہ بندی سے کام لیا کہ شراب اور سود کے عادی لوگوں نے شراب و سود کو ترک کر دیا۔ وہ لوگ جو بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے، وہ بیٹیوں کے احترام کے قائل ہوگئے اور بیٹیوں کو ارث میں حصّہ دیا جانے لگا۔ یوں نہیں ہے کہ اُدھر آیت نازل ہوتی تھی اور اِدھر نبی ؐ معجزہ کرکے کافروں کو مسلمان بنا دیتے تھے، بلکہ آپ مکمل حکمتِ عملی اور تدبیر سے کام لیتے تھے۔ آپ نے اپنی تدبیر اور منصوبہ بندی کے ساتھ بت پرستوں کے دل میں توحید کی شمع روشن کر دی اور بت پرست، اپنے بُتوں کو اور شرک کو نجس سمجھنے لگے۔ ایک ایسا سماج جو اوّل و آخر طبقاتی تقسیم پر مشتمل تھا۔ اُس متعصب سماج میں آپ نے اپنی تدبیر سے لوگوں کے اذہان کو ایسا بدلا کہ حبش کے بلال، فارس کے سلیمان، مکے کے حمزہ اور مدینے کے ایوب انصاری (رض) کیلئے ایک ہی نوالہ اور ایک پیالہ تھا۔

کائنات کا یہ ذہین ترین اور ماہر منصوبہ ساز انسان جس نے اپنی تبلیغ میں ذرّہ بھر کوتاہی نہیں کی۔ جس کی سماجی سیرت کے علاوہ جنگی تدابیر بھی عسکری تاریخ کی منفرد تدابیر ہیں۔ اتنا ذہین اور عقلِ کامل کا مجسمہ کہ جس نے بیت الخلاء کے بھی آداب بتائے، مسواک کے فوائد، ناخن کاٹنے، غسل کے واجبات و مستحبات۔۔۔ کھانا چبانے اور پانی پینے تک کا طریقہ بتایا۔۔۔ تو کیا اتنا ذہین، باریک بین اور دور اندیش انسان۔۔۔ نعوذ باللہ یہ بتانا بھول گیا تھا کہ میرا جانشین کون ہوگا۔؟ جو پیغمبر ؐ اتنا دور اندیش ہے کہ آنے والے خطرات اور واقعات سے بھی آگاہ کرتا ہے، جس پیغمبر ؐ کو خدا بھی وحی کے ذریعے خطرات سے آگاہ رکھتا ہے۔ کیا وہ پیغمبرؐ  نعوذ باللہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ میرے بعد میری اُمت کی سب سے بڑی ضرورت میرے جانشین کا تعیّن ہے۔؟

کیا وہ ذہین ترین انسان ؐ اس خطرے سے نعوذ باللہ غافل تھا کہ میرے بعد میری اُمّت میرے جانشین کے مسئلے پر  ٹوٹ کر بکھر جائے گی؟ کیا خدا نے بھی اتنے بڑے خطرے سے اپنے حبیبؐ کو آگاہ نہیں کیا۔؟ اس زاویئے سے حدیثِ غدیر نبی اکرم ؐ کے انسانِ کامل، عقل کامل اور ذہین ترین انسان ہونے کی دلیل ہے۔ یہ متفق علیہ حدیث ساری دنیا پر یہ واضح کرتی ہے کہ نبی اکرم ؐ نے ایک ذہین ترین انسان ہونے کے ناتے اپنے جانشین کا میدانِ غدیر میں اعلان کیا۔ اگر اُمّت اُس اعلان کی تابع نہیں ہوئی تو یہ اُمّت کی سوجھ بوجھ اور فہم و فراست کا مسئلہ ہے، ورنہ نبی اکرم حضرت محمد رسول اللہﷺ نے ایک ماہر، مدبر اور ایک بہترین منتظم ہونے کے ناتے اپنی طرف سے میدانِ غدیر میں اپنے جانشین کا اعلان کر دیا۔

۵۔ مدیر و منتظم ہونے کی حیثیت
حدیثِ غدیر دراصل پیغمبرؐ کے بہترین منتظم اور مدیر ہونے کی دلیل ہے۔ کوئی بھی لائق ناظم، مدیر یا منتظم اگر کہیں ہمیشہ کیلئے جانا چاہے تو وہ اپنے ادارے کو لاوارث چھوڑ کر نہیں جاتا۔ اگر وہ اپنے جانشین کے اعلان کے بغیر لاوارث چھوڑ کر چلا جائے اور پیچھے والے آپس میں خون خرابہ اور قتل و غارت شروع کریں تو یہ اُس کی انتظامی نااہلی محسوب ہوگی۔ جب یہ بات ہم جیسے کم عقلوں کو بھی سمجھ میں آرہی ہے تو وہ جو کائنات میں سب سے بڑے عقلِ کُل اور مفکر و مدبِّر ہیں، وہ کیسے اس زاویئے سے غافل رہ سکتے تھے۔ پس اپنا جانشین معیّن کرنا یہ ایک ماہر ناظم کی نشانی ہے۔ پس اس زاویئے سے حدیثِ  غدیر پیغمبرِ اسلام ؐ کے ایک بہترین ناظم ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

۶۔ اُمت کی گمراہی کا پہلو
ہمیں اس بارے میں بھی تحقیق کرنی چاہیئے کہ آیا نبی اکرم ؐ کو اپنے بعد اپنی اُمّت کی فکر تھی بھی یا نہیں!؟ متعدد نصوص موجود ہیں کہ نبی اکرمؐ اپنے بعد اپنی اُمّت کیلئے سخت پریشان تھے۔ آپ نے اپنے بعد اُمّت کو گمراہی سے بچانے کیلئے  کئی تدابیر اختیار کیں۔ آپ نے فرمایا: "إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ"، "میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھام کر رکھو گئے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔۔۔" وہ دو چیزیں کونسی ہیں، اس وقت وہ ہمارے پیش نظر یہ نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ پیغمبرؐ اپنے بعد اُمّت کی گمراہی کے بارے میں فکر مند تھے اور اس کیلئے آپ راہِ حل بتاتے تھے۔

اسی طرح واقعہ قرطاس و قلم والی حدیث بھی بہت مشہور ہے۔ یہ حدیث اتنی اہم ہے کہ صحیح بخاری شریف میں چھے مقامات پر اور صحیح مسلم میں تین مقامات پر درج ہے۔ "حدثنا قَبِیصَةُ حدثنا بن عُیَیْنَةَ عن سُلَیْمَانَ الْأَحْوَلِ عن سَعِیدِ بن جُبَیْرٍ عن بن عَبَّاسٍ رضی الله عنهما أَنَّهُ قال یَوْمُ الْخَمِیسِ وما یَوْمُ الْخَمِیسِ ثُمَّ بَکَى حتى خَضَبَ دَمْعُهُ الْحَصْبَاءَ فقال اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم وَجَعُهُ یوم الْخَمِیسِ فقال ائْتُونِی بِکِتَابٍ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا ولا یَنْبَغِی عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا هَجَرَ رسول اللَّهِ صلى الله علیه وسلم قال دَعُونِی فَالَّذِی أنا فیه خَیْر مِمَّا تدعوننی إلیه"، "ابن عباس فرماتے ہیں کہ  جمعرات کا دن، جمعرات کا دن کیا دن تھا، ابن عباسؓ نے یہ کلمات اپنی زبان پر جاری کئے اور رونے لگے، یہاں تک کہ آنسو کے قطرات ان کے رخساروں پر جاری ہوئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مجھے قلم اور کاغذ لاکر دو، تاکہ میں ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ ہرگز گمراہ نہ ہوجاو۔۔۔"

اس سے آگے ہم ترجمہ نہیں کرتے یہ محققین پر ہم چھوڑتے ہیں کہ وہ تحقیق کریں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓکیوں روئے؟ اس آخری وقت میں پیغمبرؐ کو کاغذ قلم کیوں نہیں دیا گیا اور کس نے ایسا کرنے سے روکا؟ رسولِ خدا کے سامنے جھگڑا کرنے والے یہ لوگ کون تھے۔ ہمارا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ رسول اپنے بعد اُمّت کے گمراہ ہونے کے بارے میں فکر مند تھے اور اس حوالے سے آپ اپنے آخری وقت میں بھی اپنی وصیّت کو مکتوب کرنا چاہتے تھے۔ یہ صرف وصیت نہیں تھی بلکہ رسول ؐ یہ ضمانت دے رہے تھے کہ "لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا"، "اس وصیّت کے بعد تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔" رسولؐ خود فرما رہے ہیں کہ اس وصیت کے بعد "ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔" خیر یہاں تک یہ ثابت اور واضح ہوا کہ نبی ؐ اپنے بعد اپنی اُمّت کے گمراہ ہونے کے بارے میں سخت فکر مند تھے۔ آپؐ اتنے فکر مند تھے کہ آپ نے اپنے آخری جانشین حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بھی بتایا۔ آپ نے آخری زمانے کی ہولناکیوں میں بھی اپنی امت کو اپنے جانشین کا تعارف کرایا، تاکہ اُس وقت بھی امت گمراہ نہ ہو۔

لمحہ فکریہ ہے کہ جس نبی ؐ کو یہ گواراہ نہیں کہ آخری زمانے میں بھی اُس کی اُمّت اُس کے جانشین کو نہ پہچاننے کی وجہ سے گمراہ ہو جائے تو کیا وہ نبیؐ یہ گواراہ کر لے گا کہ اُس کی اُمّت اُس کے فوراً بعد اُس کے جانشین سے لاعلمی کی وجہ سے گمراہ ہو جائے۔؟ چنانچہ حدیثِ غدیر اس بات کی سند ہے کہ نبی ؐ نے اپنے فوراً بعد امت کو گمراہی سے بچانے کیلئے جانشین کا اعلان کر دیا تھا۔ حدیث غدیر یہ ثابت کرتی ہے کہ پیغمبرؐ اپنے بعد اپنی اُمّت کی گمراہی کے حوالے سے فکر مند تھے اور اپنے فوراً بعد کیلئے آپ اپنا جانشین مقرر کرکے گئے تھے۔

۷۔ قیامت تک ہدایت کا بندو بست
پیغمبرِ اسلام اتنے بڑے وژن کے حامل تھے کہ آپ نے دعوتِ ذوالعشیر میں ہی اپنے جانشین کا اعلان کیا۔ اسی طرح آپ بخوبی یہ نقشہ رکھتے تھے کہ ہدایت کا یہ کارواں نسل در نسل کیسے آگے بڑھے گا۔ آپ نے اپنے ہاتھوں سے حضرت امام علیؑ، اپنی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اپنے نواسوں حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسینؑ کی تربیت کی۔ اسی لئے آپ نے ان کے فضائل بیان کئے، تاکہ لوگ آپ کے بعد ان کی پیروی کریں۔ مثلاً حدیثِ سفینہ کو ہی لیجئے۔ یہ سُنی و شیعہ دونوں کے ہاں موجود ہے: ”مثل اھل بیتی مثل سفینہ نوح، من رکبھا نجی و من تخلف عنھا غرق۔“، "میرے اہل بیت کی مثال سفینہ نوح کی مانند ہے، جو بھی اس پر سوار ہو جائے گا، نجات پا جائے گا اور جو اس سے روگردانی کرے گا، وہ غرق ہو جائے گا۔"

اہل بیت کے سفینے پر سوار ہونے سے مراد ان کی اطاعت کرنا ہے۔ اسی طرح دیگر جتنے فضائل بھی رسولؐ نے بیان کئے، وہ اسی لئے بیان کئے، تاکہ لوگ ان سے ہدایت حاصل کریں۔ اب جن ہستیوں کی خود رسولؐ نے اپنے ہاتھوں سے تربیت کی تھی، ان جیسا کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے؟ اسی میدان مباہلہ میں رسول ؐ صرف انہی کو اپنے ساتھ لے گئے، جن کی خود تربیت کی تھی۔ اب ان ہستیوں کی آغوشِ تربیت میں مزید ایسی ہی بے مثل شخصیات نے پروان چڑھنا تھا، جو قیامت تک ہدایت و تربیت کا فریضہ انجام دیتیں۔ پیغمبرِ اسلام نے اپنے اہل بیت کی بے مثل تربیت کرکے قیامت تک کیلئے ہدایت کا دروازہ کھول دیا ہے کہ اب اسی در سے دنیا کو قیامت تک ہادی ملے گا۔ حدیثِ غدیر سے یہ بتاتی ہے کہ اہلِ بیت، رسول کے تربیت یافتہ ہیں۔ حضرت امام علیؑ سے لے کر حضرت امام مہدیؑ تک سارے ہادی اسی گھرانے سے ہونگے، چونکہ اس گھرانے میں ہدایت و تربیت کا جو انتظام ہے، وہ کہیں اور نہیں۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مائدہ آیت تین
خبر کا کوڈ : 1068805
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Noor Syed
Pakistan
بہت خوب اللہ سلامت رکھے، اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے۔
ایک نقطہ آپ یہ لکھ لیتے کہ اللہ نے قرآن مجید میں وصیت کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو سب کے لئے ہے۔ کیا رسولﷺ خود اس پر عمل نہیں کریں گے۔؟ یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ-فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۚ-وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُؕ-وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌۚ-فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُۚ-فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ-اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًاؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(11)وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌۚ-فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ-وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌۚ-فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ-وَ اِنْ كَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّ لَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُۚ-فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍۙ-غَیْرَ مُضَآرٍّۚ-وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌﭤ(12)

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں، اگرچہ دو سے اوپر تو ان کے لئے ترکے کا دو تہائی حصہ ہوگا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا حصہ ہے اور اگر میت کی اولاد ہو تو میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے ترکے سے چھٹا حصہ ہوگا، پھر اگر میت کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کے لئے تہائی حصہ ہے، پھر اگر اس (میت) کے کئی بہن بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا، (یہ سب احکام) اس وصیت (کو پورا کرنے) کے بعد (ہوں گے) جو وہ (فوت ہونے والا) کرگیا اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔) تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ان میں کون تمہیں زیادہ نفع دے گا، (یہ) اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصہ ہے۔ بیشک اللہ بڑے علم والا، حکمت والا ہے اور تمہاری بیویاں جو (مال) چھوڑ جائیں، اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں سے تمہارے لئے آدھا حصہ ہے، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے۔ (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو انہوں نے کی ہو اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے) اور اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہارے ترکہ میں سے عورتوں کے لئے چوتھائی حصہ ہے، پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے، (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو وصیت تم کر جاؤ اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔) اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ تقسیم کیا جانا ہو جس نے ماں باپ اور اولاد (میں سے) کوئی نہ چھوڑا اور (صرف) ماں کی طرف سے اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہوگا، پھر اگر وہ (ماں کی طرف والے) بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہوں گے، (یہ دونوں صورتیں بھی) میت کی اس وصیت اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہوں گی، جس (وصیت) میں اس نے (ورثاء کو) نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ بڑے علم والا، بڑے حلم والا ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيم سُوۡرَةُ البقرۃ آیت 180 وصیت کی ...
راجہ خضر رحمٰن
تشنگی ابھی باقی ہے، سر تمام اقساط پڑھ کر ہی رائے قائم کی جا سکتی۔
جزاك الله
ہماری پیشکش