0
Friday 1 Nov 2013 00:29
میاں صاحب کا دورہ امریکہ ناکام رہا

ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ نواز شریف کیلئے ٹیسٹ کیس ہے، سید خورشید شاہ

نواز لیگ نے بلدیاتی انتخابات میں اپنی پالیسی سے ضیاء کی یاد تازہ کردی
ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ نواز شریف کیلئے ٹیسٹ کیس ہے، سید خورشید شاہ
سید خورشید شاہ پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے واحد سیاستدان ہیں جنہیں دوسری جماعتوں میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ زرداری حکومت میں اپوزیشن سے مذاکرات سے لیکر تمام اہم امور کی انجام دہی تک خورشید شاہ کا نہایت ہی کلیدی کردار رہا ہے۔ خورشید شاہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ سیاست کے اکھاڑے میں کسی بھی الیکشن میں شکست سے دوچار نہیں ہوئے۔ اپنی نیک نامی کے باعث لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ''اسلام ٹائمز'' نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والے خورشید شاہ سے ایک انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
                                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ٹائمز: وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ پر کیا تبصرہ
کریں گے۔ کچھ حلقے اسے کامیاب دورہ تصور کر رہے ہیں۔؟
سید خورشید شاہ: یہاں میں سوال کرتا ہوں کہ کامیابی کا معیار کیا ہے،؟ الیکشن کمپئین میں آپ نے دعوے کئے تھے کہ ہم ڈرون حملے رکوائیں گے، ہم معیشت کو بہتر بنائیں گے، ہم ڈاکٹر عافیہ کو واپس لائیں گے۔ آپ نے کہا تھا کہ آزاد خارجہ پالیسی کا آغاز کریں گے۔ اب اگر اس دورے اور اس کے حاصل پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ میاں صاحب نہ ڈرون حملے رکوا سکے اور نہ ہی پاکستان کا مؤقف مضبوط انداز میں پیش کرسکے، الٹا شکیل آفریدی کا مطالبہ لے کر واپس آئے ہیں۔ یہ دلیل ہے کہ ان کا دورہ امریکہ ناکام رہا ہے۔ نواز حکومت نے معیشت کی مضبوطی کے دعوے کئے مگر چند روز بعد ہی آئی ایم ایف کا دروزہ کھٹکھٹایا۔ اب وہ پارلیمنٹ میں آئیں گے تو یقیناً ایوان کو اعتماد میں لیں گے۔

اسلام ٹائمز: کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ کی ڈو مور پالیسی پیپلزپارٹی نے بھی جاری رکھی۔ شکیل آفریدی کے دینے جیسے
مطالبات فقط میاں صاحب کی حکومت تک ہی محدود نہیں۔؟

سید خورشید شاہ: نہیں ایسا نہیں، ہم اپنی پالیسیز خود بناتے تھے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ ہم نے کیا ہے۔ ہم نقصان میں جا رہے ہیں، ملک میں توانائی کا بحران ہے، دنیا میں تیل کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ اس لیے جب ہم کہتے ہیں کہ ہماری اپنی آزاد اور خود مختار پالیسی ہونی چاہیے تو دنیا نے چیخنا شروع کر دیا، لیکن پھر بھی ہم نے آئی پی منصوبے پر سمجھوتہ نہیں کیا، آپ دیکھیں کہ امریکی اور دیگر ممالک کی مخالفت کے باوجود ہم نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط کئے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہم نے آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔

اسلام ٹائمز: بلاشبہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ پیپلزپارٹی کا بہت بڑا کارنامہ ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب اس پر عمل کرلیں گے۔؟

سید خورشید شاہ: دیکھیں، پاکستان نے 2014ء تک اس منصوبے کو مکمل کرنا ہے، لیکن ابھی تک اس پر کوئی پیشرفت
نہیں کی گئی۔ اس پر ابھی ہم ایوان میں مسئلہ کو اٹھائیں گے۔ میں خود میاں صاحب سے ملاقات کروں گا اور ان سے پوچھوں گا کہ وہ اس پر کیوں اتنی تاخیر کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنے پیٹ کاٹ کر اس طرح کے منصوبے شروع کیے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام ٹائمز: اب اگر میاں صاحب ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں تو آپ کیا کریں گے۔؟
سید خورشید شاہ: ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ نواز شریف کا ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر اس منصوبے پر عمل درآمد نہ ہوا تو یہ پاکستان کی بدقسمتی ہوگی۔ یہ معاہدے اتنی آسانی سے نہیں ہوا کرتے، آپ دیکھیں کہ ایران نے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بچھا دی ہے، اب ہمارے حصے کی رہ رہی ہے، جسے ہم نے 2014ء میں مکمل کرنا ہے۔ اب تک اس پر پیش رفت نہ ہونا قابل تشویش ہے۔


اسلام ٹائمز: عمران خان اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں، اس پر آپ کیا کہیں گے۔؟

سید خورشید شاہ: دیکھیں اٹھارہویں ترمیم اس بات
کی اجازت دیتی ہے کہ کوئی نمبر گیم کے ذریعہ ایوان میں تبدیلی لاسکتا ہے۔ اگر خان صاحب کے پاس مقررہ تعداد موجود ہے تو تبدیل کر دیں، مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ میری پارٹی اقلیت میں ہے۔ بہرحال میں چانس وغیرہ کی بات نہیں کرتا۔ تاہم میرے لئے یہ انوکھی بات ضرور ہے کہ قومی ایشوز پر اپوزیشن کو ایک ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اے پی سی کو اتنا عرصہ گزر گیا ہے لیکن ابھی تک طالبان کے ساتھ نہ تو مذاکرات کئے جا رہے ہیں اور نہ ہی انکے خلاف طاقت استعمال کی جاتی ہے، کیا کہیں گے۔؟

اسلام ٹائمز: جی بالکل! اسی سلسلہ میں، میں نے میاں صاحب کو ایک خط لکھا ہے کہ آپ جلد سے جلد فیصلہ کریں۔ میاں صاحب ان دنوں فارغ نہیں ہیں، کیونکہ چائنہ سے آتے ہیں تو امریکہ چلے جاتے ہیں، امریکہ سے آتے ہیں تو لندن چلے جاتے ہیں، بس آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلدیاتی الیکشن میں سندھ اور پنجاب میں ہونے والی حلقہ بندیوں پر تحفظات
کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔؟

سید خورشید شاہ: مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آخر یہ تحفظات کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے۔ حلقے بھی وہی ہیں، ووٹرز بھی وہی ہیں تو پھر پریشانی کس بات کی ہے۔ دوسرا یہ کہ تین صوبوں میں جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو نواز لیگ غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن کرانے جا رہی ہے، میرے خیال میں انہیں غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن کرانا بھی چاہیں کیونکہ ضیاءالحق کی کچھ یادیں بھی تو تازہ ہونی چاہیں۔

اسلام ٹائمز: پنجاب حکومت کے اس فیصلے کیخلاف آپ کی جماعت عدالت گئی ہوئی ہے، ابھی تک فیصلہ کیوں نہیں آ رہا۔؟

سید خورشید شاہ: یہ تو آپ عدالت سے پوچھیں کہ وہ فیصلہ کیوں نہیں دے رہی، ایک طرف سپریم کورٹ جلد از جلد بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم دے رہی ہے تو دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ فیصلہ دبا کر بیٹھی ہوئی ہے۔ عدالت کو جلد فیصلے کرنے چاہئیں، اب کوئی فیصلہ آئے تو ہم بھی اس پر کوئی ورکنگ کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 316289
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش