0
Tuesday 20 Mar 2012 09:12

پاک امریکا تعلقات، پاکستانی پارلیمنٹ میں ہونیوالی بحث میں دلچسپی رکھتے ہیں،وکٹوریہ نولینڈ

پاک امریکا تعلقات، پاکستانی پارلیمنٹ میں ہونیوالی بحث میں دلچسپی رکھتے ہیں،وکٹوریہ نولینڈ
اسلام ٹائمز۔ امریکا نے کہا ہے کہ تعلقات میں پیچیدگیوں کے باوجود پاکستان سے دوستی برقرار ہے اور اس حوالے سے امریکی موقف میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات امریکی قومی سلامتی کے لئے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کی مدد سے القاعدہ کے اہم رہنماؤں کا خاتمہ کیا گیا اور دہشتگردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کوششیں جاری رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک امریکا تعلقات میں کئی چیلنجز درپیش ہیں تاہم امریکا پاکستانی حکام کے ساتھ قریبی رابطہ رکھے ہوئے ہے۔ دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نےایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ امریکا پاکستانی حکومت کے ساتھ تعلقات دوبارہ استوار کرنے کا خواہش مند ہے اور پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے پاکستانی پارلیمنٹ میں ہونیوالی بحث کو دلچسپی سے دیکھا جائے گا۔

دوسری طرف پاکستان اور امریکہ ایک سال کے بدترین بحرانوں کے بعد اپنے کشیدہ تعلقات کو از سر نو معمول پر لانے کیلئے دوبارہ کوشش میں ہیں، تاہم ان تعلقات کی بحالی ڈرون حملوں کے ایشو پر ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہے۔ افغان جنگ پر کمزور گرفت اور اتحادیوں کی بداعتمادی میں اضافے نے اوباما انتظامیہ کیلئے خفیہ سی آئی اے کے ڈرونز حملوں نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے اور ان حملوں کا مرکز پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی اور جنوبی وزیرستان ہیں، امریکی اخبار کے مطابق امریکہ کو طالبان پر صرف ٹیکنالوجی کی برتری حاصل ہے۔ امریکہ کی طرف سے ڈرونز حملوں میں دوبارہ تیزی لائی جا رہی ہے،۲۰۱۰ء میں ۱۱۷جبکہ ۲۰۱۱ء میں۶۴ حملے کیے گئے۔ گذشتہ ماہ اوباما انتظامیہ میں ایک گرماگرم بحث میں وزرات خارجہ نے ڈرونز حملوں میں اضافہ اور تیزی کا مطالبہ کیا تھا تاہم حتمی فیصلہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ ایچ پیٹریاس کے پاس ہے۔

اخبار نے ایک سینئر امریکی عہدے دار کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈرون حملے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں ایک ایسا مسئلہ بن چکے ہیں جن کا کوئی آسان حل نہیں۔ بعض حکام کا کہنا ہے کہ سفارتی تعطل پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ مزید معلومات کے اشتراک کو ختم کرسکتا ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی قومی سلامتی کی سابق رکن کا کہنا ہے کہ ڈرونز پروگرام کو محدود کرنا امریکہ کے مفاد میں نہیں تاہم انتظامیہ انتہائی لچک دکھائے گی۔ امریکہ القاعدہ کے اعلیٰ کمانڈروں کو نشانہ بنانے کیلئے ڈرونز کو بہترین ہتھیار سمجھتا ہے۔ اس کے ساتھ ڈرونز پاکستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں ایک اہم کردار ہیں۔ اخبار کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں ہر صورت اپنے فوجیوں کی حفاطت کرنا ہے اتحادی فوجیوں کے خلاف تمام کارروائیاں وزیرستان سے ہوتی ہیں۔

اخبار کے مطابق قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت سے ڈرونز حملو ں کے متعلق شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ڈرون نے ان کی کارروائیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے جب کہ کئی رہنماؤں نے پہاڑوں کی گہرائیوں میں پناہ لے لی ہے لیکن پاکستان میں ڈرونز کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حملوں کو ملکی خودمختاری اور شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سمجھتے ہوئے پاکستانی عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اخبار کے مطابق ڈرونز حملوں کی وجہ سے پاکستان اور واشنگٹن کے تعلقات ۴ماہ سے کشیدہ ہیں۔ اخبار نے امریکہ میں پاکستانی سفیر شیری رحمن کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہم امریکہ سے شفاف اور قابل عمل تعلقات کے خواہاں ہے۔ اخبار نے ان امکانات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث کے دوران ڈرون حملوں کے خاتمے کامطالبہ غالب رہے گا۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ہے کہ ڈرون حملوں میں بچوں اور خواتین سمیت معصوم لوگ مارے جا رہے ہیں پہلے ان حملوں کا بند ہونا لازمی ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بغیر پائلٹ طیارے کو گراؤنڈ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اوباما انتظامیہ کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ڈرونز ایک موثر ہتھیار بن گئے ہیں۔ ان کی گراؤنڈنگ کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ واشنگٹن میں ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہا ہے کہ سی آئی اے مسلسل احتیاط برت رہی ہے کہ ڈرونز حملوں سے کم ازکم جانی نقصان ہو۔ ان حملوں کا مقصد پاکستان میں عسکریت پسند دشمنوں کو ہلاک کرنا ہے۔ اوباما انتظامیہ نے اب تک ۲۶۵ ڈرونز حملے کئے جن میں شمالی اور جنوبی ویزستان میں ۹۵ فی صد حملے کیے گئے۔
خبر کا کوڈ : 146975
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش