0
Tuesday 12 Jun 2012 14:17

قراقرم یو نیورسٹی کی مضحکہ خیز کارستانیاں

قراقرم یو نیورسٹی کی مضحکہ خیز کارستانیاں
اسلام ٹائمز۔ قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی جو گلگت بلتستان کاواحد اعلی تعلیمی ادارہ ہے، جو دنیا کی عظیم سلسلہ ہائے کوہ قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش کی سنگم پر واقع ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کی بین الاقوامی سرحدوں کے سنگم پر واقع ہے۔ گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جہاں شاید دنیا کی نہ سہی تو پاکستان کی حد تک مختلف سائنسی، ماحولیاتی، قدرتی وسائل اور دیگر سماجی شعبوں میں تحقیق کی وسیع ترین گنجائش اور مواقع موجود ہیں اور قراقرم یونیورسٹی اس طرز کی تحقیقات کیلئے بیس کیمپ بن سکتی ہے۔

شاید اسی لیے اس یونیورسٹی کا نام انٹرنیشنل رکھا تھا تاکہ یہ ایک بین الاقوامی تحقیقی ادارے کے طور پر سامنے آئے اور اپنا کردار ادا کرے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ادارے کی انتظام و انصرام کیلئے درد رکھنے والے مناسب، اہل اور بابصیرت قیادت کا انتخاب نہیں ہوسکا۔ جس کی وجہ سے یہ ادارہ آزادی اظہار، تکریم نفس، تخلیقی اور تحقیقی کاوشوں کی نشونما، جدت پسندی  کی پذیرائی اور سب سے بڑھ کر احساس زمہ داری اور خودمختاری جیسے اعلیٰ اہداف کو فروغ دینے اور ان کی پرورش کرنے میں ابھی تک ناکام نظر آتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ لگتا ہے گلگت شہر کی طرح اس ادارے میں بھی انتظامی حوالے سے کرفیو نہ سہی تو مارشل لاء کا گمان ضرور ہوتا ہے۔ ملک کے دیگر حصوں سے آئے ہوئے اعلی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار پروفیسرز انتظامیہ کی سخت گیر رویے اور رہائش کے ساتھ بجلی اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں آنے کے بعد بد دل ہوکر واپس چلے جاتے ہیں۔

فروری 2010 سے ابھی تک پروفیسر سلیمی، پروفیسر آئی این حسن اور پروفیسر جیلین ٹیلر اور پروفیسر جعفری جیسے سینئر پروفیسرز سمیت دس سے زائد مایہ ناز اساتذہ استعفیٰ دے چکے ہیں۔ ایک استاد محترم نے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ایک تفصیلی خط بھی لکھا ہے۔  جبکہ ایک اور استاد نے تنگ آکر کنٹریکٹ بونڈ کے مطابق دس لاکھ روپے اپنی جیب سے بھر کر استعفیٰ دینے کو ترجیح دی۔ اطلاع کے مطابق اس استاد کے ساتھ لاکھوں کا تحقیقی پروجیکٹ بھی ساتھ چلا گیا۔ تمام تحقیقی کام سرد خانے کی زینت بنی ہے اور اس نوخیز یونیورسٹی میں اس وقت کوئی نئی تعمیری کام نہیں ہو رہا۔ بس سب نوکری کر رہے ہیں، اوپر سے نیچے تک۔ یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ اگر کسی شعبے میں کوئی قابل استاد آنا چاہے تو ایسے بھی بابے موجود ہیں جو اپنی مفادات کے پیش نظر کئی طریقوں سے ان کا راستہ روک دیتے ہیں۔

ایک ڈیپارٹمنٹ میں ابھی تک مختلف اوقات میں چار پروفیسرز نامزد ہوئے۔ لیکن انہی وجوہات کی بنا پر آنے نہ پائے۔ جدت اور تخلیقی کاموں کیلئے کوئی پذیرائی یا حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ محترمہ وائس چانسلر کی رہائش گاہ کے بالکل سامنے سینئر پروفیسر کی ہاسٹل سمیت پوری پروفیسرز کالونی اکثر اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں۔

بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک پروفیسر محض اسی وجہ سے یونیورسٹی چھوڑ گئے کہ وہ اس اندھیرے اور اندھیر نگری سے تنگ آچکے تھے۔ حالانکہ بجلی اتنی دور بھی نہیں، پی ڈبلیو ڈی کے مین گرڈ سٹیشن صرف دو سو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ کالونی میں رہایش پذیر چند افراد نے ذاتی کوششوں سے بجلی کی کنکشن لائی تو ان کی جواب طلبی ہوگئی۔ سوائے چند افراد کے انفرادی کاوشوں کے نہ سٹاف میں وہ احساس اپنائیت پیدا ہو سکی ہے جو اس ادارے کو اپنا گھر، اپنا ادارہ اور اپنی مستقبل سمجھ سکیں نہ ہی طلبا و طالبات میں وہ احساس پیدا کرسکے ہیں جو اسے مادر علمی، اور اپنے مستقبل کی تربیت گاہ کے طور پر لے سکے۔

معلوم ہوا ہے کہ تمام یونیورسٹیوں کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے واضح لفظوں میں ہدایات جاری ہوا ہے، کہ کسی بھی ریٹائرڈ شخص کو انتظامی عہدے پر نہ رکھا جائے۔ کیونکہ ریٹائرمنٹ کی بھی تو کوئی فلاسفی ہوگی۔ لیکن قراقرم یونیورسٹی میں ان ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کئی شعبوں کے ہیڈ سمیت دونوں ڈین کی اہم ترین انتظامی زمہ داری ریٹائرڈ پروفیسرز کے حوالے کئے ہوئے ہیں۔ ڈائریکٹر اسٹیٹ کے انتظامی عہدے پر بھی ریٹائرڈ بندے کا تعین ہوا ہے اور وہ بھی کسی اشتہار کے بغیر۔ حد تو یہ کہ ڈین آف سائنسز تو اسی 80 سال سے زائد عمر کی ایک خاتون ہے۔  جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وائس چانسلر صاحبہ کی استانی رہ چکی ہے۔ اسی طرح ایڈوائزر فیکلٹی اپنی زندگی کے نوے 90 سالہ یوم پیدائش منا چکے ہیں یا منانے والے ہیں اور ماشاءاللہ سے جوان ہیں۔

اب ایسے عمر رسیدہ لوگ توانائی سے بھرپور اکیسویں صدی کی تیزی سے بدلتی ہوئی حالات سے مقابلے کیلئے نوجوان طلباء و طالبات کی قیادت کیسے کرسکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان ریٹائرڈ پروفیسرز میں کئی ایسے بھی ہیں جن کو کمپیوٹر پر ایک خط لکھنے میں گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ آن لائن تعلیم و تعلم کی سہولیات سے استفادہ شاید دور کی بات ہے۔ ہائی ٹیک اور آئی  ٹی کے اس دور میں بیسویں صدی کے وہ اساتذہ جو ابھی تک اُسی دور کی یادوں سے باہر نہیں نکل پائے، ایک نو خیز یونیورسٹی کی نئی نسلوں کو مستقبل کیلئے کیسے تیار کر سکتی ہیں۔ ہاں البتہ یہ بزرگ انتظامیہ کے فیصلوں پر دستخط کیلئے ضرور کام آتے ہیں۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں امتحانات کی ناقص نظام اور ڈگریوں میں نمبروں کی غیر عدم وقعت کے پیش نظر ملک کے تمام پیشہ ورانہ کالجوں اور یونیورسٹیز میں داخلے کیلئے صوبائی سطح پر ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ اور ٹیسٹ میں پاس ہونے والے امیدواروں کو ہی داخلہ ملتا ہے۔ یہ تو صرف داخلے کیلئے قائم کردہ معیار ہے۔ اصولی طور پر اعلی گریڈز میں بھرتی کیلئے تمام سرکاری اور نجی اداروں میں تحریری امتحان لیے جاتے ہیں۔ گریڈ سولہ سے اوپر کسی بھی عہدے کی تازہ بھرتی کیلئے وفاقی یا صوبائی پبلک سروس کمیشن کا امتحان لازمی ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ امیدوار میں واقعی مطلوبہ قابلیت موجود ہے یا نہیں۔

تاہم قراقرم یونیورسٹی اس ضمن میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ خود مختار ادارہ کہہ کر یہاں کے اصول و ضوابط بھی نرالے ہیں۔ 2011-12 میں گریڈ اٹھارہ اور انیس میں لیکچررز اور اسسٹنٹ پروفیسرز کی عہدوں پر بھرتی کیلئے تحریر ٹیسٹ کو غیر ضروری قرار دیا گیا اور ڈگریوں کی بنیاد پر خواہ وہ کسی بھی تعلیمی ادارے سے ہو، بس فیصد زیادہ ہو تو  صرف نمبروں کی بنیاد پر انٹرویو کیلئے بلایا گیا اور زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹوں کی انٹرویو کو بنیاد بناکر گریڈ اٹھارہ اور انیس کی ریگولر ملازمتیں دی گئی۔ جس سے نہ صرف اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھ کر نسبتا کم نمبروں کے ساتھ زیادہ قابلیت والے رہ گئے، کیونکہ ان کو شارٹ لسٹ ہی نہیں کیا۔  اپنی قابلیت کی اظہار کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ جبکہ معیار کی پروا کیے بغیر خوب نمبر دینے والے تعلیمی اداروں کے گریجویٹس آگے آنے کے امکانات بہت بڑھ گئے۔

مزید برآں گزشتہ دفعہ سکردو کیمپس کیلئے درخواستوں کی شارٹ لسٹنگ میں وہاں کے مقامی امیدواروں کو مختلف بہانوں سے ڈراپ کیا۔ جس پر یونیورسٹی سنیٹ کے چیئرمین کو مداخلت کرنی پڑی اور اس نتیجے میں جو دو چار لوگ شارٹ لسٹ ہوگئے وہ کوالیفائی کرگئے۔ جبکہ بہت سارے دیگر امیدوار یا تو بر وقت اطلاع نہ دینے کی وجہ سے یا صرف ایک مارک شیٹ کی کاپی نہ ہونے کا بہانہ بناکر شارٹ لسٹ ہی نہیں کیا گیا۔

سفارشی بندوں کو وزٹنگ یا کنٹریکٹ اساتذہ کے طور پر کھپانے کیلئے سٹوڈنٹس کی ضروریات کو مد نظر رکھے بغیر مضامین تھونپنا ایک معمول کی بات ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی دور میں عوام کو زیادہ با اختیار بنانے کیلئے تمام اداروں میں ملازم تنظیموں پر عائد پابندیاں اٹھالی گئی تھی لیکن یہاں پر اس ضمن میں بھی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن کے نام سے یونیورسٹی کی تدریسی ملازمین کی تنظیم کو مختلف قسم کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اس کے کئی فعال کارکن کو پروبیش پر رکھا گیا ہے۔ ان کی اظہار رائے پر پابندی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو استاد تھوڑا بہت حق بات بولے اس کیلئے اعلی تعلیم کے جائز مواقع سے استفادہ کی بھی اجازت نہیں دیے جاتے۔ لفظ ’’ فیصلہ ‘‘ صرف وائس چانسلر کیلئے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے، چھوٹے سے چھوٹے فیصلے کیلئے بھی وی سی سے اجازت ضروری ہے۔ کسی استاد کی دو دن چھٹی سے لیکر نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کیلئے آفس کی جگہ تک کیلئے وی سی کی اجازت ضروری ہے۔

شنید ہے کہ ابھی تو طلباء و طالبات کی چھٹی کیلئے بھی منظوری وی سی دیا کرے گی۔ تمام ڈیارٹمنٹس کے ہیڈز اور ڈین کا کام صرف ڈاکیے کا رہ گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ تمام انتظامی عہدے صرف خانہ پری کیلئے برائے نام ہیں۔ تمام فیصلوں کا حق وی سی نے اپنے ہاتھ میں لی ہوئی ہے۔  گزشتہ سمسٹر میں ساٹھ طلبا و طالبات نے ایم فل پروگرامز میں داخلہ لیا۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی غیر لچکدار رویے اور معیار کے حوالے سے تحفظات کی بنیاد پر تقریبا پچاس فیصد طلباء و طالبات نے یونیورسٹی چھوڑ دیا جن میں سے پندرہ  نے بیک وقت ایم فل پروگرام کو خیر باد کہہ دی۔ آخر ان سے کوئی پوچھیں کہ کیا وجوہات تھی، جن کی بنا پر وہ ایک سمسٹر پڑھنے کے بعد چھوڑ دیا۔

موجودہ رجسٹرار کی تیسری دفعہ ملازمت میں توسیع کے باوجود یونیورسٹی کی statute کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹی سٹیٹیوٹ یا سادہ لفظوں میں یونیورسٹی کے اصول و ضوابط کی سنیٹ سے باقاعدہ منظوری کے بعد یہ قانونی شکل اختیار کرے گی اور یوں غیر قانونی طریقوں سے بھرتیوں، سٹاف کو تنگ کرنے کے ہتھکنڈوں اور اقربا پروری کا راستہ ختم ہو جائے گا۔

اس لئے اس طرح کی کسی بھی قانون کو حتمی شکل دینے یا پاس کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس طرح کے قانون پاس ہونے سے قبل ہی ضرورت سے زیادہ ملازمین کی ایک فوج ظفر موج بھرتی کرنے کے علاوہ اپنے من پسند کے بہت سارے فیصلے کرچکے ہیں۔ یونیورسٹی statute نہ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ اپنی مرضی کے مطابق کبھی اے جی پی آر، کبھی قائداعظم یونیورسٹی، کبھی  پنجاب یونیورسٹی، کبھی ایچ ای سی کا حوالہ دے کر اور کبھی خودمختار ادارہ کہہ کر اپنی مرضی کے پالیسی اپناتے ہیں اپنا کوئی مستقل قانون نہیں، گویا وی سی اور رجسٹرار ہی قانونِ کل ہیں۔

موجودہ رجسٹرار کے دور میں بھرتیوں کے حوالے سے شکایات سے تو گزشتہ چار سالوں کی اخبارات بھری پڑی ہیں۔ اس عرصے میں یونیورسٹی کے خلاف عدالتوں میں بہت زیادہ مقدمات دائر ہوئے۔ عدالتی زرائع کے مطابق سال 2012 کی پہلی سہ ماہی میں یونیورسٹی کے خلاف کل 24 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ابھی تک جن مقدمات کے فیصلے ہوچکے ہیں وہ تقریبا سبھی یونیورسٹی کے خلاف ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک مقدمے کے فیصلے کی رو سے بائیس کنٹریکٹ لیکچررز کو بیک وقت مستقل کرنے کی احکامات کا جاری ہونا بھی ہے۔

حال ہی میں ایک اور مقدمے میں دو لیکچررز کو کئی سال پرانی تاریخ سے ریگولر کرنے کے عدالتی احکامات جاری ہوئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے ان مدعیان کے ساتھ انصاف نہیں کیا تھا  یا یونیورسٹی کا عملا اچھی طرح دفاع نہیں کیا تھا۔ دونوں صورتوں میں نا اہلی یا فرائض منصبی سے غفلت واضح ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مقدمے میں رجسٹرا کے قریبی لوگ تھے لہذا ان کو مستقل کرنے کیلئے کیس کا مناسب دفاع نہیں کیا گیا اور یوں یونیورسٹی کو خفت کے علاوہ مالی نقصان اور سب سے بڑھ کر عوام کی طرف سے مناسب معیاری ٹیسٹ انٹرویو کے طریقہ کار سے ہٹ کر اتنے افراد کو مستقل ملازت دے پر معیار تعلیم پر سوالات اٹھانے کا موقع دیا گیا۔

سٹاف سمیت مختلف لوگوں کی عدالتوں سے رجوع اس بات کی صاف گواہی دیتی ہے کہ کہیں نہ کہیں دیدہ و دانستہ انصاف کا فقدان ہے۔ سکردو کیمپس کی پی سی ون اس طرح تیار اور پیش کیا گیا کہ اسے کئی بار ایچ ای سی نے مسترد کردیا۔ کیا انتظامی عہدوں پر موجود افراد اس اہل نہیں کہ وہ ایک قابل قبول پی سی ون تیار کرسکے۔ اگر ایسا ہے تو انہیں اپنے عہدوں پر رہنے کا حق کس حد تک ہے اور اگر ایسا عمداً کیا گیا ہے تو وہ اپنے فرض منصبی کو کس حد تک پورا کر رہے ہیں۔

ان سوالات کے جوابات بھی شاید کوئی نہ دے پائے۔ جس استاد محترم اس یونیورسٹی سے استعفی دینے کے بعد ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے نام جو خط لکھا ہے۔اس میں شاید تعلیمی، تحقیقی اور انتظامی حوالوں سے بہت کچھ موجود ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود انتظامیہ سختیوں اور پابندیوں میں اضافے کو ہر مسئلے کا حل سمجھتی ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی حوالے سے بزرگوں کی عزت کو لوگوں کی کمزوری سمجھتی ہے اور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ صرف طاقت کی پالیسی مناسب ہے۔
خبر کا کوڈ : 170060
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش