0
Thursday 9 Aug 2012 23:25

جمعۃ الوداع، یوم القدس اور ہماری ذمہ داریاں

جمعۃ الوداع، یوم القدس اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر: منیر چوہدری
 
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جمعۃ المبارک کا دن سید الایام ہے اور تمام دنوں سے افضل و بر تر ہے، اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ دن سلامتی و رحمت کا حامل ہے، جسکی بڑی اہمیت و فضلیت ہے۔ رمضان کریم کے جمعہ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ اس جمعہ المبارک میں رمضان الکریم کی فضیلتیں بھی شامل ہو جاتیں ہیں۔ لیکن جو فضلیت اور مرتبت رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو حاصل ہے وہ کسی اور دن کو حاصل نہیں۔ جمعۃ الوداع نور علٰی نور اور قرآن العیدین ہے، جو مسلماں کی عظمت و شوکت، ہیبت و جلالت کا عظیم مظہر ہے۔
 
بلاشبہ یہ دعاؤں کی قبولیت کا دن ہے، اس دن امت مسلمہ کی فلاح بہود اور عالم اسلام کے غلبہ و عزت کے لیے چہار سو مساجد میں دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ جمعۃ الوداع کے خطبہ کی بھی اپنی شان و منزلت ہے، جس میں مسلمانوں کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے اسلامی شعار کے مطابق راہ متعین کی جاتی ہے، اتحاد بین المسلمین کا درس ان خطبات کا خاصہ ہوتا ہے، انہی خطبات میں ملت اسلامیہ کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے پرزور مطالبات عالمی برادری کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔

جمعۃ الوداع کے خطبہ و نماز کے بعد دنیا بھر کے مسلمان ریلیوں، جلسوں اور جلوسوں کی صورت میں اسلامی دنیا کے خلاف امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کی پالیسیوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ان پالیسیوں کے خلاف عظیم الشان مظاہرے برپا کرتے ہیں، جن میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اسلام پسند عوام بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ جمعۃ الوداع کی طرح قبلہ اول کی بھی اسلامی حوالے سے بیش بہا فضلیت ہے، قبلہ اول (بیت المقدس) سرزمین فلسطین پر واقع ہے۔ یہ وہ مبارک مقام ہے جس کی جانب رخ فرما کر حضور نبی کریم اپنے اصحاب و انصار کے ہمراہ نمازیں ادا فرماتے تھے اور معراج کے سفر کا آغاز بھی اس مبارک مقام سے ہوا۔ 

قبلہ اول (بیت المقدس) چھ دہائیوں سے اسرائیل کے جبری قبضہ و تسلط میں ہے، جس کو یہودی ’’ہیکل سلمانی‘‘ میں تبدیل کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور اس مقدس مقام پر کسی مسلمان کو داخل ہونے کی اجازت حاصل نہیں۔ عالمی برادری مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے اس جابرانہ سلوک پر خاموش ہے۔ ملت اسلامیہ کی جانب سے جمعۃ الوداع کا مبارک دن قبلہ اول کی آزادی سے منسوب کرکے یوم القدس قرار دیا گیا ہے، تاکہ بیت المقدس کو یہودیوں کے شکنجہ سے آزادی دلانے کا جذبہ حریت مسلمانوں میں کبھی ماند نہ پڑے اور عالمی عدالت انصاف، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی ملت اسلامیہ کے اس دیرینہ مسئلہ کو کبھی فراموش نہ کرسکیں۔
 
مشرق وسطٰی کی آنکھ فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے، جہاں 1917ء تک مسلمان بڑی آبرومندانہ زندگی بسر کر رہے تھے، مگر دوسری جانب سویت یونین، یورپ و دنیا کے دیگر حصوں میں یہودیوں کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس اثر کو زائل کرنے کے لیے یہاں کے حکمرانوں نے یہودیوں کو اپنے ممالک سے نکال کر باہر پھینکنا شروع کیا۔ یہودیوں نے اپنے سرمائے کے بل بوتے پر برطانیہ اور امریکہ سے اپنے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا۔ یہودیوں کے اس مطالبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برطانیہ نے اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر عسکری لحاظ سے کمزور اسلامی مملکت فلسطین پر حملہ کیا اور اس کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا۔

برطانوی افواج نے فلسطین کے اس حصہ میں یہودیوں کی آباد کاری کا عمل شروع کیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو بیدردی سے تہ تیغ کیا۔ یہاں آباد ہونے والے یہودیوں کو امریکہ اور برطانیہ نے نہ صرف مہلک ہتھیاروں سے لیس کیا، بلکہ ان کی بھرپور فوجی تربیت اور مدد کی۔ فلسطین میں مسلمانوں کی قتل و غارت کا سلسلہ 1947ء تک برطانیہ کی نگرانی میں جاری رہا۔ 1947ء میں فلسطین کی اس اسلامی سرزمین پر غیرقانونی طور پر وجود میں لائی جانیوالی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
 
اسرائیل کے قیام کے بعد برطانیہ نے تو اپنی افواج فلسطین سے نکال لیں، مگر اس ناجائز یہودی ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری امریکہ نے قبول کی۔ اس وقت سے تاحال اسرائیل امریکی سرپرستی میں نہ صرف مظلوم فلسطینی عوام پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے بلکہ دنیا بھر کے اسلامی ملکوں کے خلاف ایک گھناؤنے اور مذموم ایجنڈے پر کاربند ہے۔ امریکہ اپنے ناجائز لے پالک طفل شر کے ذریعے مشرق وسطٰی سمیت تمام اسلامی دنیا کو غیر مستحکم اور پسماندہ رکھنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے ناجائز قیام کے لیے یہود و نصاریٰ نے نظریہ ہولوکاسٹ متعارف کرایا۔ کچھ ناعاقبت اندیش اور بکاؤ قلم رکھنے والے اس نظریہ سے اتنے متاثر نظر آتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو بھی پاکستان کی طرح نظریاتی ریاست کا نام دینے سے نہیں چوکتے۔ 

مغرب نے جو نظریہ ہولو کاسٹ متعارف کرایا، اس کے مطابق چونکہ یہودیوں پر بہت ظلم و ستم ڈھائے گئے ہیں، لہذا ان کے لیے علیحدہ ریاست کا قیام ضروری ہے۔ اگر اس نظریہ کو درست بھی مان لیا جائے تو تاریخ بتاتی ہے کہ یہودیوں پر ظلم و ستم مسلمانوں یا عربوں نے نہیں ڈھائے، بلکہ یورپ اور امریکہ کے کئی علاقوں میں عیسائیوں نے ڈھائے۔ ہٹلر دور میں اور سے قبل و بعد یہودیوں کی نسل کشی کی گئی۔ ان کو اجتماعی قبروں میں زندہ دفن کیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ بعد میں عیسائیوں نے اپنے تاریخی جرائم پر پردہ پوشی کے لیے بچے کھچے یہودیوں کو اکھٹا کرکے مسلمانوں کی آزاد سرزمین پر مسلط کر دیا۔ 

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہودیوں کی ریاست اسی جگہ قائم ہوتی، جہاں ان کے آباؤ اجداد کو عیسائیوں نے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔ اس لحاظ سے وہ جگہ وسطی یورپ، برطانیہ کے نزدیک بنتی ہے۔ یہودیوں نے بھی اپنے پیغمبر کی تعلیمات سے روگرانی کرتے ہوئے ان عیسائیوں سے تو محبت و دوستی کی پینگیں لڑانی شروع کر دیں، جنہوں نے ان کا قتل عام کیا، لیکن مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار دیدیا۔ 

فلسطین کی آزادی کی تحریکوں کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت و سرپرستی حاصل رہی، لیکن فلسطینی کاز کو جو اہمیت و حیثیت ایران میں اسلامی انقلاب کے رونما ہونے کے بعد میسر آئی، وہ اس سے قبل نہ تھی۔ امام خمینی (رہ) کے زیرسایہ برپا ہونے والے اسلامی انقلاب نے پہلے دن سے ہی سامراج طاغوت کو اپنا دشمن اور ازلی حریف قرار دیا اور اسرائیل کو ایک غیرآئینی، غیرقانونی اور عالمی قواعد کے منافی قوت قرار دیکر اس کے مکمل خاتمہ کا مطالبہ کیا۔
 
امام خمینی (رہ) نے اپنے ایک روحانی خطاب میں جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اے  مسلمانوں جمعۃ الوداع اجتماعی وحدت کی علامت ہے، اس دن کو القدس کی آزادی کے طور پر مناؤ، فلسطین کی آزادی کے مصم ارادہ و عزم کر لو۔ امام خمینی (رہ) کے اس خطبہ کو دنیا بھر کے مفکروں نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔ اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے اپنے تاثرات میں یہ امید ظاہر کی کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا اسرائیل سے نجات کی خوشخبری سنے گی۔ 

آزاد فلسطین کا دیرینہ خواب کب کا پورا ہوچکا ہوتا، اگر چند اسلامی ریاستیں اپنے وسائل اور اختیارات سمیت سامراج کی گود میں سر نہ چھپاتی۔ یہ حکمران اقتدار اور مسند شاہی کو اللہ و اس کے رسول (ص) کی عطا سمجھنے کے بجائے اسے امریکہ برطانیہ کی عنایت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ کہ ان کا ہر عمل و اقدام امریکہ اور اس کے میمنہ میسرہ کی خوشنودی سے وابستہ ہے۔ برادر اسلامی ملک ایران کے صدر احمدی نژاد نے اپنے تاریخی خطاب میں جب اسرائیل کے وجود پر مبنی نظریہ ہولو کاسٹ پر مبنی تقریر کی تو امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، یورپ کے تمام حکمران اور نمائندے، مغربی میڈیا شدت سے چیج اٹھے، جیسے ملت کے اس سپاہی نے ان کی دکھتی رگ پر اپنا پاؤں رکھا ہو۔ 

موجودہ وقت اسلام اور ملت اسلامیہ کے لیے کڑے امتحان سے کم نہیں۔ مذہب اور امت کے دشمن دنیا پر حکمرانی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ہر خوفناک حربہ آزما رہے ہیں۔ ان کے مذموم عزائم کے آگے بند باندھنے کے لیے ضروری ہے کہ ملت اسلامیہ کا ہر مرد و زن، جوان، بچہ، بوڑھا بیدار رہے اور اپنی استطاعت کے مطابق سامراجی منصوبوں (فرقہ واریت، عریانی، فحاشی، پرآسائش طرز زندگی، اخلاقی گراوٹ، اقدار، تہذیب، کلچر کی پامالی) کو مسترد کرے اور اتحاد بین المسلمین، سادہ و زاہدانہ طرز زندگی، اخلاق حسنہ، مشرقی اقدار و تہذیب، اسلامی نظریہ سیاست، ملت کے اجتماعی حقوق کے لیے فکری و نظریاتی بیداری کا اہتمام کرے۔ 

پرنٹ و الیکڑانک میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ میڈیا سے وابستہ ہر مسلمان کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی معاشرے میں اسلامی نظریات کا پرچار کرے۔ رمضان المبارک کے آخری جمعۃ الوداع (یوم القدس) کے مظاہروں، جلسوں، جلوسوں، سیمینارز، کانفرنسز اور ریلیوں کی براہ راست کوریج کرے۔ تاکہ دنیا کے ہر شخص کو عالم اسلام کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں سے نہ صرف آگاہی حاصل ہو، بلکہ دنیائے امن کے لیے حقیقی خطرہ (امریکہ، اسرائیل ۔۔وغیرہ) کو سمجھنے کا شعور بھی حاصل ہو۔ 

علماء کرام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خطبات میں یوم القدس کی اہمیت بیان کریں اور مسلمانوں کو اپنے عصری فرائض سے آگاہی دیں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماء جمعتہ الوداع یوم القدس کے پروگراموں میں شائد اس دلیل کے بل بوتے شرکت نہیں کرتے کہ یہ صرف علماء، خطباء یا دینی جماعتوں کا مسئلہ ہے، حالانکہ قدس (قبلہ اول) و فلسطین کی آزادی سیاسی و دینی مسئلہ ہے۔ لہذا تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ان پروگراموں میں اپنی شرکت یقینی بنانی چاہیے۔ 

اسلامی ممالک کی افواج میں شامل ہر جوان وطن اور مذہب سے وفاداری کا حلف لیتا ہے۔ اس حلف کا بھی تقاضا ہے کہ اسلامی افواج بیت المقدس کو یہودی استبداد سے آزاد کرانے کے لیے عملی کوششیں کریں اور یوم القدس کے مبارک موقع پر اسلامی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، تاکہ پوری دنیا تک یہ پیغام جائے کہ اسلامی ممالک کی افواج اپنی عوام، سرزمین اور مذہب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ 

یوم القدس ہر ظالم کے ظلم کی نفی کرتا ہے۔ جہاں فلسطین کی آزادی کی آواز اجتماعات میں بلند ہوتی ہے، وہاں امریکی ڈرون حملوں، کشمیر میں بھارتی و اسرائیلی گروپس کی گوریلا کارروائیوں، برما میں ہونیوالی قتل و غارت کے خلاف بھی ہر مسلمان صدائے احتجاج بلند کرتا ہے اور کرتا رہے گا، جب تک عالمی ناانصافیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، اس وقت تک پرامن دنیا کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یوم القدس ملت اسلامیہ کے اجتماعی حقوق کا محافظ ہے، جو ہر مسلمان کو اپنی شرعی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 186289
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش