0
Thursday 12 Dec 2013 21:21

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
تحریر: عاشق حسین

اسلامی جمہوریہ ایران کے 1+5 یعنی سکیورٹی کونسل کے 5 ممالک (امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس) جمع جرمنی کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر پاکستان میں بعض حلقوں کی سخت پریشانی  کو  دیکھ کر راقم الحروف نے چند حروف لکھنے کا ارادہ کیا ہے، تاکہ رائے عامہ کو خواہ مخواہ پریشان کرنے کے لئے انکے حالیہ ہتھکنڈوں کی حقیقت سامنے آسکے، جو ایک خاص مقصد کے تحت بعض حلقوں  یا لکھاری بونوں کی جانب سے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ  پہلے تو یہ معاہدہ جو فی الحال چھ مہینوں کے لئے ہوا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران اور  5+1 ممالک کے درمیان ہے نہ کہ امریکہ کے ساتھ۔

دوسری بات یہ کہ یہ معاہدہ کہ جسکے حوالے سے اب بھی امریکہ پر موجود بے اعتمادی اور اس کی  جانب سے صیہونی لابی کی بے چون و چراں پیروی کی وجہ سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، کسی  تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔ یہ کوئی سکیورٹی اور  سیاسی معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ٹیکنیکل معاہدہ ہے کہ جسکی رو سے  اسلامی جمہوریہ ایران کی 5+1 کے ساتھ  اپنی شرائط تھیں۔ علی  القاعدہ ایسا ایک معاہدہ تب ہی منعقد ہوتا ہے کہ طرفین اپنی اپنی  شرائط میں لچک دکھائیں۔ مثلاً اسلامی جمہوریہ ایران میں یورینئیم کی بیس فیصد افزودگی ہوچکی ہے، معاہدے کی رو سے ایران اس کو پہلی حالت میں لے جائے گا، یا اسے پرامن مقاصد کے لئے ایندھن میں تبدیل کردیگا۔ ساتھ ہی بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ماہرین کو اجازت ہوگی کہ وہ ایران کے ایٹمی  پلانٹس کی چیکنگ کرسکیں گے اور ان پر باقاعدہ آبزرویشن ہوگی۔ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی بھی جواب میں ایران کو پرامن مقاصد کے لئے یورینئیم کی پانچ فیصد افزودگی کی اجازت دیگی۔

ایران تو روز اول سے ہی کہتا رہا ہے کہ  پرامن مقاصد کے لئے NPT  معاہدے کے تحت اسے یورینئیم کی  افزودگی کا حق حاصل ہے، جب کئی سالوں سے NPT کا رکن ملک ہونے کے باوجود اسلامی جمہوری ایران کے اس جائز حق کو تسلیم نہیں کیا گیا، تو اس نے  اپنے ہی ایٹمی ماہرین کی کوششوں سے بیس فیصد تک یورینئیم کی افزودگی شروع کی، اور جب بڑے پیمانے پر یورینیئم کی بیس فیصد افزودگی ہوچکی تو تب جا کر  5+1 کو یہ احساس ہوا کہ اب ایران کے حق کو ماننا چاہیے، کیونکہ اگر یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو  ممکن ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کے رخ کو فوجی مقاصد کی جانب موڑ دے اور اس کے ساتھ ایران پر اقتصادی پابندیاں کچھ نرم ہوئیں۔ اگرچہ اب بھی بہت سے لاینحل مسائل باقی ہیں جو  چھ مہینوں میں حل ہوںے ہیں۔ ایران کے تقریباً سو  بلین ڈالر کے  اثاثے امریکہ اور مغربی ممالک کے بینکوں میں پھنسے ہوئے ہیں، تو اگر 5+1 بالخصوص امریکہ  اپنے وعدے نبھاتا ہے تو ایران بھی معاہدے کی رو سے  اپنے وعدے پورے کریگا، اور اگر امریکہ اپنے  وعدوں پر عمل نہیں کرتا، تو ایران بھی اپنی پہلی پوزیشن پر واپس آجائیگا۔

تو عرض یہ ہے کہ  اسلامی جمہوریہ ایران اصولوں کے تحت سیاست کرتا ہے اور اپنے اصل اہداف کے تحت جو پرامن مقاصد کے لئے یورینئیم کی افزوردگی ہے، اس سے بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ لہذا اس معاہدے کو افغانستان یا عراق سے نہ جوڑا جائے۔ وہ ممالک جو اس معاہدے سے سخت پریشان ہیں، انہیں ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیئے کہ وہ سالہا سال امریکی کیمپ میں بیٹھ کر اسکے ڈالروں پر جی رہے ہیں، اور خطے میں امریکی لشکر کشی کا باعث بنے ہوئے ہیں، وہ کیسے اپنے  بونے لکھاریوں کے ذریعے ایران پر انگلی اٹھا سکتے ہیں کہ ایران نے  اپنے ایٹمی پروگرام سے متعلق اپنے موقف میں لچک لا کر امریکہ اور انکے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مفاہمت کرلی ہے۔

تو کیا ایران مفاہمت  نہ کرے۔؟ ان کے خیال میں کیا ایران آخر تک لڑتا رہے اور اس لڑائی سے یہ پریشان ممالک فائدے اٹھاتے رہیں؟ اب بھی انکی پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایران اور امریکہ کے تعلقات بحال ہو جائیں اور جو کام امریکہ اب تک ان سے کرواتا رہا ہے، وہ اسکے بعد ایران سے کروانا شروع نہ کر دے، تو اس حوالے سے عرض  یہ ہے کہ ایران  میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو  35 سال گذر چکے ہیں اور انقلاب کے بعد ایران  امریکی لابی سے نکل چکا ہے، اور  اس مدت میں ایران نے  امریکہ کے لئے کوئی بھی ایسا کام  انجام نہیں دیا ہے کہ وہ خطے  کے ممالک بالخصوص مسلم ممالک کے خلاف ہو، بلکہ  جب سے ایران میں اسلامی حکومت تشکیل پاچکی ہے، امریکہ اور صیہونی حکومت کے ناجائز مفادات کے خلاف اور مسلمانوں کے مفاد کے دفاع میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔

اگر فلسطین کے مسئلے کو دیکھا جائے تو ایران فلسطینی حکومت  کے مقابلے میں ہمیشہ اور اعلانیہ طور پر کھڑا ہے اور فلسطین کو ہر طرح کی امداد فراہم کی ہے اور اگر آج حماس کی حکومت قائم ہے تو  ایران کی بھرپور مدد کی مرہون منت ہے۔ ایران اگر لبنان میں حزب اللہ  کی  امداد کرتا ہے تو یہ کام بھی علی الاعلان کرتا ہے۔ کیا ایران کے  لئے مناسب ہوگا کہ ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور اپنے مسلمان بھائیوں پر جاری مظالم کے سامنے کچھ نہ کرے! بیس سال پہلے اگر ایران بوسنیا کے مسلمانوں کی امداد نہ کرتا تو آج اس ملک میں مسلمانوں کی حکومت نہ ہوتی، حالات کچھ اور ہوتے، اگرچہ بوسنیا کے مسلمانوں کی امداد کی خاطر کرویشیا کو بھی مجبوراً کچھ دینا پڑتا تھا۔

شام جو صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کا ایک مضبوط محور ہے، مقاومت کے اس محور کو ختم کرنے کے لئ ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے کہ صیہونی حکومت اور بعض مغربی اور عرب ممالک نے ملکر الائنس بنایا ہوا ہے اور تکفیری ٹولوں کو القاعدہ کے بھیس میں وہاں بھیج کر کیا کیا مظالم وہاں کے عوام اور حکومت پر نہیں ڈھائے گئے۔ مزید برآنکہ وہابی مفتیوں کے عجیب و غریب فتوؤں کی بھی بھرمار ہے، یہاں تک کہ  ان دہشتگردوں کے پیر جب میدان جنگ میں اکھڑنے لگتے ہیں تو محاذ پر ان کے ٹکنے کی خاطر  نکاح فی الجہاد کے فتوے دیئے گئے اور مختلف ممالک سے لڑکیاں اور عورتیں دہشتگردوں کی شہوت مٹانے کے لئے شام بھیجی گئیں۔

ایران کے ساتھ مخالفت کی مغرب اور امریکہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایران تمام دنیا میں مسلمانوں کی حمایت اور انکی امداد کرتا ہے۔ اگر آج ایران پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں اور بائیکاٹ کو پینتیس سال گذر رہے ہیں تو ان بائیکاٹوں کی اصلی علت ایران کی مستقل اور خود مختار پالیسی ہے، جو مسلمانوں اور مظلوموں کی حمایت پر مبنی ہے۔ ایران اگر کسی ملک میں مسلمانوں کی مدد کرتا ہے تو علی الاعلان کرتا ہے اور بعض ممالک کی طرح منافقانہ رویہ نہیں اپناتا کہ ایک دن ان کی مدد کرے اور دوسرے دن امریکی ڈالروں کی وجہ سے انکی مخالفت پر کمر بستہ  ہو جائے۔ جمہوری اسلامی ایران ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے سب مسلمانوں (شیعہ سنی) کے ساتھ برابر کے تعلقات رکھتا ہے، اور مشکلات میں ان کی امداد اپنا فرض سمجھتا ہے۔
 
اسلامی انقلاب کا اصلی پیغام اور روح مسلماںوں کی وحدت ہے، اور اگر اسلامی اتحاد نہ ہو تو انقلاب کی روح باقی نہیں رہ سکتی۔ آج اسلامی دنیا میں اکثریت اہل سنت برادری کی ہے، اگر ان برادران کی  حمایت حاصل نہ ہوتی تو ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ لکھاری بونے جو بعض خاص حلقوں کے ذریعے آج میڈیا میں چمک رہے ہیں، ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ کن کے کندھے پر بندوق رکھ کر ایک ایسے ملک کے خلاف جسارت کر رہے ہیں، جس کی استقامت اور مزاحمت نے آج امریکہ اور مغربی ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 330055
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش