1
0
Saturday 1 Nov 2014 21:35

یوم آزادی گلگت بلتستان، کتنی حقیقت کتنا افسانہ۔۔۔۔

یوم آزادی گلگت بلتستان، کتنی حقیقت کتنا افسانہ۔۔۔۔
رپورٹ: میثم بلتی

گلگت بلتستان کی 20 لاکھ عوام آج اپنا یوم آزادی منا رہی ہے، آج سے 67 برس قبل انہوں نے اپنے زور بازو سے ڈوگرہ فوج کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ کرنل حسن خان، بابرخان، صفی اللہ اور بختاور شاہ جیسے مجاہدین باصفا نے بے سروسامانی کی حالت میں آزادی حاصل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ یہ گلگت بلتستان کے لاکھوں عوام کے دلوں کی آواز تھی کہ ہم نے وطن عزیز کو آزاد کرانا ہے۔ مجاہدین آزادی نے قابض افواج کو نکالنے کے لئے اس قدر موثر منصوبہ بندی کی کہ جس کی دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوا، نتیجہ یہ نکلا کہ مجاہدین نے 28 ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد کر لیا۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ یکم نومبر کو گلگت بلتستان آزاد ہوا اور 16 نومبر تک یہ دنیا کے نقشے پر آزاد ریاست کے طور پر زندہ و تابندہ رہا تاوقت آنکہ پاکستان سے آنے والے ایک تحصیلدار نے اس کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 67 سال سے گلگت بلتستان کے عوام حقیقی آزادی کے لئے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں، المیہ یہ ہے کہ پاکستان نے گلگت بلتستان کا انتظام سنبھال لیا لیکن اس سے کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔ پاکستان نے چشم تصور میں اس کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ سمجھ لیا تھا۔ 28اپریل 1949ء کو کشمیری قیادت نے گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کرنے کا تاریخی سیاہ معاہدہ کیا۔ انسانی تاریخ کا یہ ایک شرم ناک معاہدہ ہے جس میں اصل فریق موجود ہی نہیں تھا۔ یہ وہ معاہدہ ہے جو غلامی کی نئی سیاہ رات کا نکتہ آغاز ثابت ہوا۔ اگر اس معاہدے میں گلگت بلتستان کے عوام کو اعتماد میں لیا جاتا تو تاریخ مختلف ہوتی لیکن دل میں چور تھا اس لئے اسلام آباد اور مظفر آباد دونوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔

1971ء تک گلگت بلتستان کو پاکستان نے بالکل نظر انداز کیا، یہاں ایف سی آر جیسا کالا قانون نافذ کر دیا۔ کشمیری قیادت یہ ظلم ہوتے دیکھتی رہی لیکن زبان نہ کھولی، آزاد کشمیر میں ایف سی آر نافذ نہیں لیکن گلگت بلتستان میں اس کا نفاذ دوغلی پالیسی نہیں تو پھر کیا تھا۔ خدا خدا کر کے بھٹو کے دور میں ایف سی آر کا خاتمہ ہوا، گلگت بلتستان میں موجود راجواڑے بھی ختم ہوئے، اسلام آباد کا شکنجہ قدرے ڈھیلا ہوا لیکن ساتھ ہی فرقہ واریت کا بیج بو دیا گیا۔ بھٹو کے دور میں پہلی بار گلگت میں شیعہ اور سنی کشیدگی نے جنم لیا۔ جنرل ضیاء نے اگرچہ بلدیاتی انتخابات کرائے لیکن انہوں نے مارشل لاء نافذ کر کے ایف سی آر کی یاد تازہ کر دی، لوگوں کو جیلوں میں بند کیا گیا اور عوام پر ظلم کی تمام حدیں پار ہوئیں۔ گلگت بلتستان کے طلبہ نے آئینی حقوق کے لئے جدوجہد کی تو ان کو گرفتار کرکے ہری پور جیل میں بند کر دیا گیا۔ نواز شریف اور بینظیر کے ادوار میں بھی اسلام آباد کی عوام دشمن پالیسی جاری رہی، بغل میں چھری منہ میں رام رام کی پالیسی پر دونوں کاربند رہے۔ بظاہر گلگت بلتستان کے عوام کے ہمدرد لیکن اندر سے مخالف، جنرل مشرف نے کارگل کی جنگ میں گلگت بلتستان کے سپوتوں کو استعمال کیا، تاہم انہوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو چند سیاسی حقوق اور یونیورسٹی وغیرہ ضرور دی۔

پی پی کے دور میں ایک سیاسی پیکج دے کر گلگت بلتستان کو ممنون احسان کرنے کی کوشش کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام آج بھی خود کو آزاد تصور نہیں کرتے۔ اسلام آباد لاکھ دعویٰ کرے کہ ہم نے گلگت بلتستان کو سیاسی حقوق دے دئیے، زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے باشندے نہیں، لیکن ہمارے سارے فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں، ہمارے وسائل ہمارے قبضے میں نہیں، تو پھر کس طرح ہم خود کو آزاد تصور کریں، پاکستان یہ تسلیم کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے، لیکن اس کے تمام معاملات وہ خود چلاتا ہے اس کی مرضی کے بغیر گلگت بلتستان میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا، خطے کے حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اس کو دیکھ کر شاید گلگت بلتستان کو سو سال تک بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت نہ مل سکے۔

سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام یوں ہی انتظار کی سولی پر لٹکے رہیں گے، چند ایک سیاسی حقوق کا لولی پاپ اور چند ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ دے کر ان کو خاموش کر دیا جائے گا یا پھر ان کو بھی وہ حقوق ملیں گے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ان کا حق ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام عالمی برادری سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ انہیں مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا، جب وہ بھی آزاد ہوں گے اور ان کے دامن سے متنازعہ کا دھبہ مٹ جائے گا۔
بشکریہ: بروشال نیوز
خبر کا کوڈ : 417633
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
well
ہماری پیشکش