0
Monday 12 Mar 2012 13:30

بھارت میں مسلم نسل کشی کی روایت ازل سے جاری

بھارت میں مسلم نسل کشی کی روایت ازل سے جاری
تحریر: جاوید عباس رضوی

بھارت جمہویت و سکیولرزم کا ڈھول پیٹنے والا اپنی تمام تر کاوشیں بروے کار لا کر مسلم کشی میں برسوں سے مصروف بربریت ہے، ابھی مسلمانان ِہند کے پرانے زخم تازہ ہی ہوتے ہیں تو نئی مصیبت آن پڑتی ہے، کشمیر سے لیکر کنیاکماری تک مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلے جا رہی ہے، جگہ جگہ پر امن قائم کرنے کے نام پر مسلمان نسل کا وجود ختم کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ 
گجرات سانحہ کہ جس کی دسویں سالگرہ حال ہی میں منائی گئی اس واقعہ سے کوئی بھی بھارت کا فرد نابلد نہیں ہے، گجرات کا خونین معرکہ اب تک بھارت کے ذی شعور مسلمانوں کو خون کے آنسو رلاتا ہے، گجرات واقعہ کے بعد سے بھارت کا ہر مسلمان اپنی عصمت و ناموس کو خطرے میں محسوس کر رہا ہے، ساتھ ہی ساتھ اپنی جان و املاک کو بھارت میں غیر محفوظ پا رہا ہے۔
 
مسلمان ہند کو دن میں سکون نہ رات کو چین، ہر آئے دن جان ہتھیلی پر لئے ہوئے کام کاج کے لئے بیرون خانہ نکلتے ہیں کہ نہ جانے کب کس ہندو شدت پسند کا شکار ہو جائیں، روز بروز مسلمانان ہند کو بھارت میں نئے نئے الزامات میں ملوث کیا جا رہا ہے، کبھی انکو دہشتگرد کا نام دیا جاتا ہے تو کبھی پاکستان نوازی کا، کبھی ہمارے صحافی حضرات کو گرفتار کیا جا رہا ہے تو کبھی ان کے قلم پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، کبھی ہماری مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کیا جاتا ہے تو کبھی ھمارے جلوسوں پر قدغن عائد کیا جاتا ہے۔

گجرات سانحہ مصیبت کی آخری کڑی نہیں تھی بلکہ بھارت میں مسلمانوں پر رنج و الم کی ابتداء تھی، اس سانحہ سے گجرات کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی ہندو شدت پسندوں کو حوصلہ افزائی ملی اور انہوں نے مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ڈھانے شروع کئے، جس کی جھلکیاں بھرت پور ، مراد آباد اور خود دلی میں دیکھنے کو ملتی ہیں، دہلی کا بٹلہ ہاوس انکونٹر بھی مسلمانوں سے بے رخی کی تمثیل ہے، غرض کہ مسلم جوانوں اور مسلم خواتین کو بھارت میں کسی نہ کسی بہانے اذیت و تکلیف ہر حال میں دی جاتی ہے، جوانوں کو یا تو قید و بند کی مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں عورتوں کو یہاں کے شرپسند عناصر اپنی ہوس رانی کا شکار بناتے ہیں یا پھر انہیں موت کی ابدی نیند سلایا جاتا ہے، اور ہندو شدت پسند قاتلان بھارت میں عزت و آزادی سے گھومتے ہیں اور نریندر مودی کی شکل میں حکمرانی بھی چلاتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ انہیں حکومت بھارت تحفظ بھی فراہم کر رہی ہے۔ 

   افسوس ہے کہ دس برس قبل گجرات فسادات میں بے گھر ہوئے ہزاروں افراد دس سال بعد بھی پریشان حال ہیں، انکا کوئی پرسان حال نہیں ہے، گجرات فسادات میں 5000 سے زائد مسلمانوں کو موت کی نیند سلایا گیا، ان کے گھر جلائے گئے، اس سانحہ میں 293 درگاہیں اور 205 مسجدیں خاک کے ڈھیر میں تبدیل ہوئیں ، گجرات کی متاثرہ بستیاں اب بھی بنیادی ضروریات ِ زندگی سے محروم ہیں، آج بھی اس ریاست کے مسلمان پانی، سڑک، بجلی، اسکول اور اسپتال جیسی بنیادی سہولیات سے کوسوں دور ہیں۔ 
 
   کانگرس کے سابق ممبر پارلیمنٹ اقبال خان جعفری کہ جن کو اس مسلم نسل کش سانحہ میں اپنے چالیس اہل خانہ اور رشتہ داروں کے سمیت دس مارچ 2002ء کو زندہ جلا دیا گیا تھا کی بیوہ ذکیہ نسیم کہتی ہیں کہ حادثہ سے قبل فسادیوں کی بھیڑ امڈتے دیکھ کر احسان جعفری نے پولیس کنٹرول روم، اعلٰی افسران، ریاست گجرات کے لیڈران کے ساتھ ساتھ امر سنگھ اور سونیا گاندھی تک کو فون کیا کہ ان کی جانیں خطرے میں ہیں، لیکن کہیں سے کوئی مثبت کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی، دیکھتے ہی دیکھتے فسادیوں کی جانب سے لگائی گئی آگ نے ہمارے کنبے کے چالیس افراد کو لقمہ بنایا۔ 
 
ریاست گجرات کے وزیراعلٰی نریندر مودی جو کہ گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہے، دس سال بعد بھی کبھی کسی مسلمان کی ٹوپی اتار پھینکتا ہے تو کبھی کس کی داڑھی نوچتا ہے، المیہ یہ ہے کہ بھارت کے نام نہاد جمہوریت کے دعوے دار مودی کا توڑ نہیں کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی بھارت کا کوئی حاکم نریندر مودی کے خلاف لب کشائی کرنا چاہتا ہے، کیونکہ مقتولین مسلمان ہیں، انا ہزارے کی بھوک ہڑتال بھارت کے حکام کو تڑپا کر انکی نیند اڑا سکتی ہے، لیکن مسلمانوں کے خون کی ندیاں انہیں دکھائی نہیں دیتی ہیں، کیا تصویر ہے جمہوریت کی دورخی کی۔؟ 

گجرات فسادات کو دس سال ہو گئے، لیکن ابھی تلک وہاں کی خواتین، وہاں کے نوجوان، وہاں کے سہمے ہوئے بچے و بزرگ نریندر مودی کے نام سے کانپتے ہیں، حال ہی میں نریندر مودی نے گجرات سانحہ کی سالگرہ دہلی میں اپنے نئے بزنس پلانٹ کی افتتاح سے کی، اور بھارت کے سرغنہ سیاست داں اس میں مدعو بھی تھے، کچھ یوں ہی مسلمانان ہند کے زخموں کے مرہم پٹی ہوتی ہے۔  
                          
                                     یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت     
                                    پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات 
                                                                                                   
خبر کا کوڈ : 144936
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش