3
0
Friday 14 Sep 2012 12:24

پارا چنار دھماکہ، ’’محافظوں‘‘ کی جانب اٹھتی انگلیاں مقتدر قوتوں کیلئے لمحہ فکر!

پارا چنار دھماکہ، ’’محافظوں‘‘ کی جانب اٹھتی انگلیاں مقتدر قوتوں کیلئے لمحہ فکر!
رپورٹ: سید عدیل عباس زیدی

کرم ایجنسی وفاق کے زیرانتظام 7 قبائلی ایجنسیوں میں سے ایک ہے، نائن الیون واقعہ کے بعد خطہ پر مسلط کی گئی امریکی جنگ نے افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو بھی شدید متاثر کیا، اور کرم ایجنسی کے علاوہ دیگر 6 قبائلی ایجنسیوں کو مقامی اور غیر ملکی دہشتگردوں نے اپنا مسکن بنا لیا، اور پھر ان دہشتگردوں نے پورے ملک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا، جس میں اب تک لگ بھگ 45 ہزار سے زائد شہری شہید ہو چکے ہیں، کرم ایجنسی کو بھی طالبان نے اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کی، اس کوشش میں طالبان کو آغاز میں کامیابی بھی ملی، تاہم پارا چنار اور دیگر علاقوں کے غیور اہل تشیع نے اپنی مادر وطن کی حفاظت کی اور محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ملک دشمن طالبان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔

باجوڑ، خیبر، اورکزئی، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور مہمند ایجنسی میں طالبان کو پنپنے میں زیادہ مشکل اس وجہ سے پیش نہیں آئی کہ وہاں کے قبائل جن کو یقیناً ان دہشتگردوں کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے سمیت مختلف مسائل کا سامنا رہا، نے طالبان کی اس طرح سے مخالفت نہیں کی جس طرح کہ پارا چنار اور دیگر علاقوں میں دیکھنے کو ملی، گو کہ باجوڑ، خیبر، اورکزئی اور مہمند ایجنسی میں طالبان مخالف امن لشکر تشکیل دیئے گئے اور انہوں نے قربانیاں دینے کے علاوہ طالبان کیخلاف کامیابیاں بھی حاصل کیں، تاہم قبائل کی ایک بڑی تعداد ان طالبان کے خوف میں مبتلا رہی۔

کسی حد تک اس قسم کی صورتحال کرم ایجنسی میں بھی دیکھنے کو ملی، جہاں صدہ سمیت بعض اہل سنت قبائل کے علاقوں میں طالبان کو بلاروک ٹوک سرگرمیوں کی اجازت دی گئی، ایک قومی سطح کی مذہبی جماعت کے رہنماء (جن کا تعلق کرم ایجنسی سے ہے) نے اسلام ٹائمز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کرم ایجنسی کے اہل سنت نے کسی خوشی سے طالبان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اپنے جان و مال کے تحفظ کیلئے ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا، ان کا کہنا تھا کہ کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے تمام اہل سنت طالبان اور تکفیری گروہوں کی سوچ سے اتفاق نہیں کرتے۔

دوسری جانب دیکھا جائے تو کرم ایجنسی کے صدر مقام پارا چنار سمیت دیگر اہل تشیع علاقوں میں مقیم افراد کے واضح موقف اور مقاومت کی وجہ سے طالبان کرم ایجنسی کو اپنا مسکن نہ بنا سکے، مادر وطن کے تحفظ کیلئے ایک ہزار سے زائد اہل تشیع نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے، اپنے گھر اور زمینیں تباہ کروائیں، اور اب بھی سینکڑوں افراد زخمی ہونے کی وجہ سے اپاہج زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ساڑھے چار سال تک محصور رہنے کے باوجود کہیں سے بھی ریاست کے خلاف آواز تک نہ اٹھی، ان تمام تر قربانیوں اور ملک دشمن عناصر کے عزائم کے سامنے ڈٹے رہنے کی وجہ سے آج بھی پارا چنار کے لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے پر مجبور ہیں۔

ساڑھے 4 سال کے بعد ٹل، پارا چنار (پشاور، پارا چنار) روڈ کھلنے اور مقامی سطح پر امن معاہدہ طے پائے جانے کے باوجود پارا چنار کے باسیوں کو مسلسل دہشتگردی کا سامنا ہے، اب تک پشاور اور پارا چنار کے درمیان سفر کرنے والے شیعہ مسافروں پر 28 مرتبہ ریمورٹ کنٹرول بم حملے ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچوں سمیت کئی افراد جاں بحق اور زخمی ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ پارا چنار میں اس دوران 3 خودکش اور کار بم دھماکے ہوئے ہیں، جس میں درجنوں افراد کی شہادت ہو چکی ہے، جبکہ سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں، تاہم اس کے باوجود پارا چنار کے مکینوں نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا اور اب تک قیام امن کیلئے حکومت کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔

پارا چنار میں دہشتگردی کا آخری افسوسناک واقعہ 10 ستمبر کو کشمیر روڈ پر کھڑی کار کے ذریعے کئے جانے والے دھماکے کی صورت میں رونماء ہوا، اس واقعہ میں 14 جبکہ بعض ذرائع کے مطابق اس سے کہیں زیادہ افراد شہید ہوئے، اور زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہے، اس سانحہ کے بعد پارا چنار کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، قابل فکر پہلو یہ ہے کہ اس علاقے سے تعلق رکھنے لوگ حکومت کو اس دھماکے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جب ساڑھے چار سالہ محاصرے کے دوران پارا چنار کی سیکورٹی مقامی رضا کاروں کے ہاتھ میں تھی تو دہشتگردی کا ایک بھی واقعہ رونماء نہیں ہوا۔ جب سے فوج اور ملیشیاء کے اہلکاروں نے سیکورٹی کا انتظام سنبھالا ہے، دہشتگردی کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔

واضح رہے کہ پارا چنار میں داخل ہونے کیلئے کئی چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے، جہاں سیکورٹی فورسز کے اہلکار مکمل تلاشی اور پوچھ گچھ کے بعد ہی آگے جانے کی اجازت دیتے ہیں، ایسے میں بارود سے بھری گاڑی کا پارا چنار کے مصروف بازار تک پہنچنا یقیناً سوالیہ نشان ہے، جبکہ مقامی افراد اس کو سیکورٹی لیپ کہنے کی بجائے سازش قرار دے رہے ہیں، اور اسی قسم کے جذبات کا اظہار ملک کے معروف عالم دین اور سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی نے بھی دھماکہ کے دوسرے روز ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’کرم ایجنسی میں تعینات ملیشاء کے تمام اہلکار طالبان ہیں، دھماکہ میں پیشگی اطلاع دینے والی قوتیں ہی ملوث ہیں، ان کا کہنا تھا کہ شیاطین بھی اپنے دوستوں کو وحی کرتے ہیں، انہیں پہلے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے، یہ خود اس گیم میں شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو سب معلوم ہے کیا ہو رہا ہے‘‘۔ آج ساری دنیا جانتی ہے کہ طالبان پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی پیداوار ہیں، جنہیں سویت یونین کیخلاف امریکی ایماء پر لڑایا گیا، اور طالبان کے ساتھ آج بھی روابط کے الزامات پاکستان کے سیکورٹی اداروں پر لگ رہے ہیں۔

پاکستان پر امریکہ کی جانب سے بھی اکثر طالبان کی مدد کرنے اور ڈبل گیم کھیلنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں، اور بالخصوص آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک کے علاوہ تحریک طالبان افغانستان (ملاعمر گروپ) کے مابین روابط کی باز گشت اکثر سننے کو ملتی ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت ہزاروں شہریوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع اور اربوں ڈالر کے نقصانات سمیت ملکی معیشت کو پہنچنے والے شدید ترین نقصانات کے باوجود اس قسم کے الزامات نائن الیون کے بعد اپنائی جانے والی پالیسی کی قلعی کھول دیتے ہیں۔

پارا چنار سمیت کرم ایجنسی کا علاقہ اسٹریٹجک لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے، بعض ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب امریکہ نے شمالی وزیرستان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کیا تو چند ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ نے ’’گڈ طالبان‘‘ کی اصطلاح سے جانے جانے والے چند شدت پسند گروپوں کو کرم ایجنسی میں بسانے کی کوشش کی، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کرم ایجنسی کی پہاڑیاں ڈرون حملوں کی صورت میں محفوظ ثابت ہو سکتی ہیں، اس کے علاوہ طالبان کی یہاں سے افغانستان نقل حرکت آسانی سے ممکن ہو سکی تھی، تاہم پارا چنار کے باسیوں نے اپنے علاقے کو ان شرپسند عناصر سے پاک رکھا، جس کی سزا وہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔

کرم ایجنسی میں گزشتہ کچھ عرصہ سے دہشتگردی کے متاثرہ عوام اور طالبان کو ایک صف میں لاکھڑا کرنے کی حکومتی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں، دہشتگردوں کے خلاف کارروئیاں کرنے کی بجائے بے گناہ اہل تشیع کو تنگ کیا جا رہا ہے، کبھی راہ چلتے شہریوں کو پولیٹیکل انتظامیہ کے اہلکار گرفتار کرکے لے جاتے ہیں تو کبھی شریف شہریوں کے گھروں پر خاصہ دار اہلکار چھاپے مارتے ہیں اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے، گزشتہ ماہ شلوزان کے علاقہ میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران تو خاصہ دار صندوقوں کے تالے توڑ کر قیمتی سامان بھی ساتھ لے گئے، جبکہ دوسری جانب دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ جہاں اس قسم کی صورتحال ہو وہاں ریاستی اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھنا فطری عمل ہے۔

پاکستان کو بنانے میں تشیع کا بہت بڑا کردار رہا ہے، اور اسی مکتب کے پیروکاروں نے پاکستان کے استحکام اور بقاء کیلئے قربانیاں دیں، سب سے زیادہ دہشتگردی اور فرقہ واریت کے نام پر بھی اسی مکتب کے پیروکاروں کا خون بہا، تمام تر مصائب و مشکلات کے باوجود کسی شیعہ نے پاکستان کی ریاست سے بغاوت کا اعلان نہیں کیا، اس کے باوجود اہل تشیع کو پاکستان میں مسلسل دیوار سے لگانے کی کوششیں مقتدر قوتوں کیلئے لمحہ فکر ہے، پارا چنار میں اہل تشیع کے خلاف دہشتگردی میں سیکورٹی اداروں کی جانب اٹھتی انگلیاں کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کا پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے دنیا میں ایک اہم مقام ہے، ملک کے دفاع، اندرونی اور بیرونی دشمن کیخلاف ہمیشہ پاک فوج کے جوانوں نے اپنا لہو دیکر دھرتی ماں کا تحفظ کیا، اور آج بھی اگر قوم کو کسی قدرتی آفت کا سامنا ہو تو اسی پاک فوج کے سپوت ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں، لیکن موجودہ صورتحال میں ہمارے قومی سلامتی اداروں کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے، صرف کسی دہشتگردی واقعہ کی پیشگی اطلاع دینا کافی نہیں، کسی بھی دہشتگردی کے واقعہ کو روکنا اصل مقصد ہونا چاہئے۔ 

پاکستان ایک ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے، مگر یہاں جاری دہشتگردی نے اس مملکت خداداد کو ترقی کے میدان میں کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے، ایسے میں پاک فوج کے اعلٰی حکام اور دیگر مقتدر قوتوں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا اور ملک و عوام کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنا ہونگے، جس قسم کی صورتحال پارا چنار کی ہے وہاں عوام کا اعتماد بحال کرنے سمیت ملک دشمنوں کیخلاف کارروائیاں اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ بھی حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کی ذمہ داری ہے۔
خبر کا کوڈ : 195257
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Parachinar kay momineen waqai bohat Mushkil main Hain puri qom ko unka sath dena hoga
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پارا چنار میں دھماکے کی وجہ سے کتنے مومنین شہید ہوگئے لیکن کسی ملی جماعت نے ایک روزہ سوگ تک کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی موثر احتجاج دیکھنے کو ملا۔
United Kingdom
Army Chief should take notice of these killings. Will he?
ہماری پیشکش