0
Monday 7 Jan 2013 18:54

اتحادِ امت کی علامت قاضی حسین احمد کے حالاتِ زندگی

اتحادِ امت کی علامت قاضی حسین احمد کے حالاتِ زندگی
پاکستان کی سرزمین پر اتحاد و وحدت کے داعی، جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ بزرگ سیاستدان قاضی احسین احمد کے انتقال سے جہاں مملکت خداداد میں ایک باب بند ہوا ہے وہیں ان کے چاہنے والے ایک سرپرست سے محروم ہوگئے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے قاضی حسین احمد مرحوم کے حالات زندگی پر ایک مختصر رپورٹ تشکیل دی ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

پیدائش و بچپن:
بانی جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور میاں طفیل محمدؒ صاحب کے بعد قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے تیسرے منتخب امیر تھے۔ قاضی صاحب 1938ء میں ضلع نوشہرہ (صوبہ سرحد) کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم مولانا قاضی محمد عبدالرب صاحب ایک ممتاز عالم دین تھے اور اپنے علمی رسوخ اور سیاسی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدر چنے گئے تھے۔ قاضی صاحب اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمٰن صاحب اور مرحوم قاضی عطاء الرحمن صاحب اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل تھے۔ قاضی حسین احمد بھی ان کے ہمراہ جمعیت کی سرگرمیوں میں شریک ہونے لگے۔ لٹریچر کا مطالعہ کیا اور پھر اپنا سب کچھ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے وقف کردیا۔

ابتدائی تعلیم اور عملی زندگی:
قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والدِ محترم سے حاصل کی۔ پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔ بعد ازاں جہانزیب کالج سیدو شریف میں بحیثیت لیکچرار تعیناتی ہوئی اور وہاں تین برس تک پڑھاتے رہے۔ جماعتی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کردیا۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی موجودگی کے نقوش ثبت کیے اور سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

سیاسی سفر:
دورانِ تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد آپ 1970ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے، پھر جماعت اسلامی پشاور شہر اور ضلع پشاور کے علاوہ صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ 1978ء میں آپ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور 1987ء میں آپ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب کرلیے گئے۔ وہ چارمرتبہ (1999، 1994، 1992، 2004) امیر منتخب ہوئے۔ وہ بائیس سال تک جماعت اسلامی پاکستان کے امیر رہے۔ قاضی حسین احمد 1985ء میں چھ سال کیلیے سینیٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1992ء میں وہ دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے، تاہم انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے بعد ازاں سینٹ سے استعفٰی دے دیا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں قاضی صاحب دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تاہم 2007ء میں جامعہ حفصہ میں فوجی آپریشن اور جامعہ کی طالبات کے قتل پر احتجاجاً اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔

اتحاد امت اولین ترجیح:
قاضی حسین احمد نے ہمیشہ اپنی ایک ہی شناخت پر فخر و اصرار کیا ہے اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے شناخت ہے۔ انہوں نے ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اتحاد کی سعی کی۔ تمام مکتبہ ہائے فکر کی اہم پارٹیوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل آپ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ کسی منصب یا عہدے کی خواہش نہ رکھنے کے باوجود مولانا شاہ احمد نورانی صدیقیؒ کی وفات کے بعد آپ کو اتفاق رائے سے اس کا صدر چنا گیا۔ اس سے پہلے شیعہ و سنی اختلافات کی بنیاد پر بھڑکائی جانے والی آگ پر قابو پانے کے لیے آپ کی کوششوں سے ملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں آیا، آپ اس کے روحِ رواں تھے۔ جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد انہوں نے قومی اور بین الاقوامی امور پر مشاورت کے لیے ادارہ فکر و عمل کی بنیاد ڈالی۔ 80ء کے عشرے میں متحدہ شریعت محاذ وجود میں آیا تو آپ اس کے سیکرٹری جنرل تھے کراچی میں لسانی تعصبات کے شعلے بلند ہوئے تو اپریل 1988ء میں آپ پشاور سے کاروانِ دعوت و محبت لے کر کراچی پہنچے اور پورے ملک کو محبت و وحدت کا پیغام دیتے ہوئے واپس پشاور آئے۔ تحریک نظام مصطفٰی میں امت متحد ہوئی تو آپ نے صوبہ سرحد کا محاذ سنبھالا اور پسِ دیوارِ زنداں بھی رہے۔

اتحاد امت کی ان کوششوں کا دائرہ پاکستان تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ قاضی صاحب نے یہ پیغام دنیا بھر میں عام کیا۔ سوویت یونین سے برسرِ پیکار افغان مجاہدین کے درمیان اختلافات افغان تاریخ کا سب سے اہم حصہ ہیں۔ قاضی حسین احمد صاحب نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے قائدین اور علماء و مفکرین کو ساتھ ملا کر ان اختلافات کو پاٹنے کی مسلسل کوششیں کیں لیکن بدقسمتی سے صلح کا ہر معاہدہ بیرونی سازشوں اور اندرونی بے اعتمادی کی نذر ہوگیا۔ قاضی صاحب نے اتحاد و وحدت کی یہی کاوشیں کشمیر میں بھی جاری رکھیں۔ ان کی کوششوں سے کشمیر میں مجاہدین کے درمیان پھیلائی جانے والی کئی غلط فہمیاں اور اختلافات پر بروقت قابو پایا گیا۔ سوڈان میں اسلامی تحریک کے بانی ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر مملکت جنرل عمر حسن البشیر کے درمیان اختلافات علیحدگی کی صورت اختیار کرنے لگے تو فریقین نے قاضی صاحب کو حکم تسلیم کیا۔ ایک بار صلح کا معاہدہ عمل میں بھی آگیا لیکن عالمی و علاقائی سازشوں کی نذر ہوگیا۔ اس کے باوجود قاضی صاحب کے مسلسل رابطے کے باعث اختلافات کو تصادم میں بدلنے کی کئی سازشیں ناکام ہوئیں۔ عراق کویت جنگ ہو یا مسئلہ فلسطین، بوسنیا اور کوسوو میں مسلم کشی ہو یا چیچنیا میں قتل عام، برما کے خون آشام حالات ہوں یا اریٹریا کے غریب عوام کے مصائب، قاضی حسین احمد نے پورے عالم میں امت کی توانائیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہمیشہ امت کے زخموں پر مرحم رکھنے کی کوشش کی۔

قاضی صاحب اور توسیع دعوت:
قاضی حسین احمد نے امارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد توسیع دعوت پر خصوصی توجہ دی۔ ملک گیر کاروان دعوت و محبت کے علاوہ موثر افراد سے خصوصی رابطے اور مختلف قومی مشاورتی مجالس کی تشکیل اس سلسلے کی اہم سرگرمیاں تھیں۔ اس ضمن میں 1997ء میں ممبر سازی کی ملک گیر مہم شروع کی گئی اور پینتالیس لاکھ افراد نے جماعت اسلامی کی دعوت و پروگرام کی حمایت کرتے ہوئے تنظیم جماعت کا حصہ بننے کا اعلان کیا۔

گرفتاریاں:
قاضی حسین احمد صاحب نے بھی ہر حق گو کی طرح قید و بند کی صعوبتوں اور گرفتاریوں کا سامنا کیا۔ تحریک نظام مصطفیٰ ؐ کے دوران گرفتاری کے علاوہ افغانستان پر امریکی حملوں اور یورپ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی خاکوں پر احتجاج کرنے کی پاداش میں بھی انہیں گرفتار کیا گیا۔ دوران گرفتاری انہوں نے متعدد اہم مقالہ جات لکھے، جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔

عائلی زندگی:
قاضی حسین احمد کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور وہ سب اپنی والدہ سمیت جماعت اسلامی کی دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں میں پوری طرح فعال رہتے ہیں۔ قاضی صاحب منصورہ میں دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے، جماعت کے دیگر ذمہ داران بھی اسی طرح رہتے ہیں۔ قاضی صاحب کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو، انگریزی، عربی، فارسی، پنجابی اور ہندکو پر عبور حاصل تھا۔ وہ شاعرِ اسلام علامہ محمد اقبالؒ کے بہت بڑے خوشہ چین تھے، انہیں فارسی و اردو میں ان کا اکثر کلام زبانی یاد تھا اور وہ اپنی تقاریر و گفتگو میں اس سے استفادہ کرتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 228960
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش