0
Tuesday 9 Apr 2013 19:59

ڈرون حملوں میں آئی ایس آئی کی رضا مندی شامل ہے، امریکی صحافی کا کتاب میں انکشاف

ڈرون حملوں میں آئی ایس آئی کی رضا مندی شامل ہے، امریکی صحافی کا کتاب میں انکشاف
معروف امریکی صحافی مارک مزیٹی نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے 2004ء میں نیک محمد کی ہلاکت کے بدلے سی آئی اے (امریکی خفیہ ادارے) کو ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی۔ نیک محمد کو پاکستانی سکیورٹی اداروں نے نہیں بلکہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا۔ پاکستانی حکام نے جھوٹی ذمہ داری قبول کی تھی۔ آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے اس پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں تمام ڈرون پروازیں سی آئی اے کے خفیہ ایکشن حکام کے تحت آپریٹ کی جائیں گی۔ مارک مزیٹی کی اہم انکشافات پر مبنی یہ رپورٹ آج منظر عام پر آئے گی۔ امریکی اخبار ''نیو یارک ٹائمز'' سے وابستہ صحافی مارک مزیٹی کی کتاب میں کہا گیا کہ اسلام آباد کے سی آئی اے کے چیف اسٹیشن نے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ احسان الحق کو پیش کش کی کہ اگر سی آئی اے نیک محمد کو ہلاک کردے تو آئی ایس آئی قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کی اجازت دے۔ 

خفیہ معاہدے میں یہ سودا بازی طے ہوئی۔ تاہم پاکستانی خفیہ ایجنسی اس پر بضد تھی کہ وہ ہر ڈرون حملے کی اجازت دیں گے اور ٹارگٹ کی فہرست پر سخت کنٹرول رکھیں گے۔ انہوں نے اس پر بھی اصرار کیا کہ قبائلی علاقے کے کچھ حصے پر ڈرون پرواز کریں گے۔ اس بات کی یقین دہانی حاصل کی گئی وہ وہاں ایسا کوئی ایڈ وینچر نہیں کریں جہاں اسلام آباد امریکیوں کو جانے سے منع کرے۔ آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے اس پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں تمام ڈرون پروازیں سی آئی اے کے خفیہ ایکشن حکام کے تحت آپریٹ کی جائیں گی۔ جس کے تحت امریکا کبھی بھی میزائل حملے کی ذمہ داری نہیں لے گا۔ یہ پاکستان کی مرضی ہوگی کہ وہ کسی انفرادی کلنگ کا کریڈٹ لے یا خاموش رہے۔ مشرف کے خیال میں نہیں تھا کہ اس دھوکے کو قائم رکھنا مشکل ہوگا، ایک سی آئی اے آفیسر کو مشرف نے بتایا تھا کہ پاکستان میں ہر وقت آسمان سے آفات نازل ہوتی رہتی ہیں۔ اخبار نے The Way of the Knife: The C.I.A., a Secret Army, and a War at the Ends of the Earth, کے حوالے سے لکھا کہ 2001ء میں افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد امریکا اسلام آباد سے چاہتا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی وزیری قبائل پر زور دے کہ وہ غیر ملکی جنگجووں کو ان کے حوالے کردے لیکن پشتون روایات کے تحت یہ غداری ہوتی۔

پاکستانی حکام کئی سال سے سی آئی اے کو اپنی فضاوں میں ڈرون کی پرواز میں لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔ ان کے خیال میں یہ ملکی خودمختاری کے خلاف ہوگا لیکن نیک محمد کے طاقت پکڑنے کے بعد پاکستانی حکام نے اپنے فیصلے پر غور کیا۔ سی آئی اے نیک محمد کی کافی عرصے سے مانیٹرنگ کر رہی تھی۔ ان کے خیال میں وہ پاکستان کیلئے مسئلہ پیدا کرے گا۔ وہ امریکا کے لئے مشکل نہیں تھا۔ قبائلی علاقے میں طاقت پکڑتے عسکریت پسندوں پر سی آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ نے اسلام آباد اسٹیشن کے حکام کو اجازت دی کہ وہ پاکستانی حکام کو ڈرون حملوں کی اجازت دینے پر قائل کرے۔ امریکی صحافی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جون 2004ء میں پاکستان میں ڈرون حملے میں نیک محمد کو ہلاک کیا گیا۔ سی آئی اے کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کے لئے تعینات کیے گئے پری ڈیٹر (ڈرون) کے حملے میں یہ پاکستان میں پہلی ہلاکت تھی۔ پاکستانی سکیورٹی اداروں نے اس حملے کی فوری ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز نے کمپاونڈ پرفائرنگ کی جس کے نتیجے میں نیک محمد اور اس کے ساتھی ہلاک ہوئے۔

کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کا یہ دعویٰ غلط تھا۔ یہ کوئی القاعدہ کا ہائی ویلیو ٹارگٹ نہیں تھا۔ بلکہ پاکستانی طالبان کا اتحادی اور قبائلی علاقے میں باغیوں کا سرغنہ تھا۔ جسے پاکستان ریاست کا دشمن خیال کرتا تھا۔ خفیہ معاہدے کے تحت سی آئی اے نے فضائی حدود میں رسائی کے بدلے اسے ہلاک کرنے پر اتفاق کیا۔ سی آئی اے نے پاکستان میں سینکڑوں ڈرون حملوں میں ہزاروں پاکستانی اور عرب عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا۔ تاہم پاکستان پہلا ملک نہیں بلکہ یہ امریکی نئی طرز جنگ کے لئے لیبارٹری کے طور استعمال کیا جارہا ہے۔ نیک محمد کی ہلاکت کے متعلق راز آج بھی امریکی ڈیٹا بیس میں خفیہ ہیں۔ نئے سی آئی سربراہ کو امید ہے کہ سی آئی اے کو اس کے روایتی کردار کی طرف جلد لایا جائے گا۔ اب تو ڈرون پروگرام کے خالق بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ سی آئی اے کو بہت پہلے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ختم کردینا چاہے۔

دوسری جانب تازہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے مارک مزیٹی کی کتاب کے اقتباسات پر مبنی اس رپورٹ کو بےبنیاد قرار دے کر مسترد کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اپنے ردعمل میں ترجمان نے کہا کہ یہ رپورٹ ڈرون حملوں پر پاکستان کی واضح پوزیشن کے بارے میں انتشار پیدا کرنے کے پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بار ہار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو ڈرون حملوں سے الٹا نقصان ہو رہا ہے اور یہ پاکستان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بین الاقوامی برادری میں بھی آج ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں بحث چل رہی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی حکام ان حملوں پر یہ کہہ کر تنقید کرتے رہے ہیں کہ ڈرون پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں اور ان سے شدت پسندی کو ہوا ملتی ہے، جبکہ امریکی حکام نجی طور پر کہتے ہیں کہ پاکستانی اور امریکی حکام میں اس کے متعلق تعاون ختم نہیں ہوا۔ پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے نقصان کے بارے میں تحقیقات کرنے والی اقوامِ متحدہ کی ٹیم کے سربراہ نے بھی مارچ میں کہا تھا کہ ان حملوں سے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ 

علاوہ ازیں امریکی جاسوس ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے فروری میں امریکی سینیٹ کے سامنے اوباما انتظامیہ کی طرف سے گذشتہ چار برسوں میں القاعدہ کے خلاف جنگ کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے خاص طور پر مختلف ملکوں میں ڈرون حملوں کے بڑھتے ہوئے استعمال پر توجہ مرکوز کی تھی۔ انہوں نے یہ بات واضح کی تھی کہ امریکی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ اس کے پاس القاعدہ اور اس سے وابستہ طاقتوں کے خلاف اس صورت میں ہلاکت خیز طاقت استعمال کرنے کا قانونی جواز موجود ہے، جب امریکہ کو فوری خطرہ لاحق ہو اور گرفتاری خارج از امکان ہو۔ لیکن امریکہ سے باہر صورت حال مختلف ہے۔ بقیہ دنیا ڈرون کے استعمال کی قانونی حیثیت کے آگے سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں، جہاں صدر اوباما کے دور میں ڈرون حملوں میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ علاوہ ازیں مارک مزیٹی کی اس کتاب کی رونمائی آج (منگل) کو ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 252667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش