0
Saturday 15 Dec 2012 09:59

نادیدہ طاقتوں کی وساطت سے میدان میں آنے والوں کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں، سینیٹر صالح شاہ

نادیدہ طاقتوں کی وساطت سے میدان میں آنے والوں کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں، سینیٹر صالح شاہ
اسلام ٹائمز۔ سینیٹر مولانا محمد صالح شاہ قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ مبلغ دو ہزار پینتیس روپے خرچ کرکے ایوان بالا کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا اور ثابت کیا کہ وہ ذات بغیر پیسوں کے بھی سینیٹر منتخب کر سکتی ہے۔ یہ اللہ کا کرم تھا کہ پورے فاٹا میں کسی نے بھی ایسا الیکشن نہیں لڑا۔ خالی ہاتھوں سے اللہ نے مجھے الیکشن لڑنے کی توفیق دی، یہ اللہ کا کرم تھا۔ اس دفعہ اور اس سے پچھلے سینٹ کے Tenureمیں بغیر پیسوں کے سینیٹر بنا ہوں، اس دفعہ تو بالکل دنیا حیران تھی، میں نے بالکل ایک پیسہ تک خرچ نہیں کیا، صرف دوہزار پینتیس روپے جو فارم کے بھرے وہی میرا خرچ آیا ہے۔ سینیٹر منتخب ہونے میں میرے جمال اور میرے کمال کا دخل نہیں تھا۔

چیئرمین سینیٹ کمیٹی برائے سیفران کا کہنا تھا کہ سیکیولر طاقتوں کی کارستانیاں مسلسل جاری ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ مذہبی لوگوں کو سیاست سے کنارہ کش کیا جائے۔ جے یو آئی بارے بات کرتے ہوئے ممبر سینیٹ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جمعیت تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ مگر وہ چھوٹی چھوٹی شاخیں ہیں۔ ان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ قومی اسمبلی کا ایک Candidate بھی سامنے لاسکیں۔ مولانا سمیع الحق صاحب ہمارے لئے محترم ہیں وہ مولانا عبدالحق صاحب کے فرزند ہیں صاحب قدر ہیں لیکن سیاسی حوالے سے وہ کمزور ہیں۔ اسی طرح نظریاتی گروپ بھی دو تین سال ہوئے عمل میں آیا ہے۔

اسلام ٹائمز کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روز اول سے ایسی قوتیں کارفرما ہیں جو دینی قوتوں کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں، یہ ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ دینی محاذ نادیدہ قوتوں کاکام جس کی وجہ سے ہم مسلمان آپس میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔ اگر تمام مسلمان خصوصاً پاکستان میں ہم تمام ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں تو پارلیمنٹ میں ایک طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ نادیدہ طاقتوں کی وساطت سے جو لوگ میدان میں آتے ہیں دراصل عوام میں ان کی جڑیں موجود نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ جو ماں کی گود سے خوبصورت نہ ہو وہ صابن سے خوبصورت نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح اگر جماعت کی جڑیں عوام میں ہیں تو وہ ایک مضبوط جماعت ہو گی ورنہ وہ ختم ہو جائیں گے ، جیسا کہ آئی جے آئی کی مثال ہمارے سامنے ہے ، سارے گھپلے ہمارے سامنے ہیں کہ کس نے کتنے پیسے لئے اور اس وقت یہ دھوکہ دیا جارہا تھا کہ ہم شریعت نافذ کررہے ہیں لیکن دراصل وہ پیپلز پارٹی کے لئے بنایا گیا تھا۔

مولانا صالح شاہ نے کہا کہ جیسا کہ مولانافضل الرحمان صاحب نے مردان کے جلسے میں فرمایا کہ یہ جماعتیں این جی اووز کی طرح ہیں۔ مولانا سمیع الحق جو ایک مدرسہ چلارہے ہیں جس میں چھ سات ہزار طلباء پڑھتے ہیں، اس مدرسے کے صرف پانچ یا چھ سو طلباء سمیع الحق صاحب کی جماعت ہیں باقی پانچ چھ ہزار طلباء مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہیں۔ پڑھتے ہیں سمیع الحق صاحب کے مدرسے میں لیکن نظریاتی طور پر جمعیت علماء اسلام اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہیں۔

ایم ایم اے اپنی پرانی جماعتوں کے ساتھ ہی الیکش میں حصہ لے گی۔ وقتی طور پر ایڈجسٹمنٹ ہو سکتا ہے۔ سیٹ ٹو سیٹ کا امکان بھی موجود ہے۔ لیکن سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ ایم ایم اے کی بحالی کے لئے قاضی حسین احمد نے بہت کوشش کی ہے، لیکن سید منور حسن ڈٹا رہا اور انہوں نے جماعت اسلامی کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایم ایم اے کو ان کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا چونکہ جماعت اسلامی کا اتنا ووٹ بینک نہیں ہے۔ اب تک ان کے بہت کم لوگ قومی اسمبلی تک پہنچے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 221361
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش