0
Saturday 28 Dec 2013 20:46

مدرسہ تعلیم القرآن، دیوبندی مسجد اور مدینہ مارکیٹ مندر کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرکے تعمیر کئے گئے

روزنامہ ڈان کی رپورٹ
مدرسہ تعلیم القرآن، دیوبندی مسجد اور مدینہ مارکیٹ مندر کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرکے تعمیر کئے گئے
رپورٹ: این ایچ نقوی

راجہ بازار میں واقع دیوبندی مسجد، مدرسہ تعلیم القرآن اور مدینہ مارکیٹ جو کہ 10 محرم الحرام کو نامعلوم افراد کی طرف سے جلا دیئے گئے تھے، کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ متنازعہ زمین پر تعمیر کئے گئے تھے۔ زمین متروکہ املاک بورڈ کی ملکیت ہے، متروکہ املاک بورڈ کے ایک اہلکار نے انگریزی اخبار ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مسجد، مدرسہ پاکستان بننے کے بعد تعمیر کئے گئے اور یہ تعمیر ایک مندر سے ملحقہ زمین پر کی گئی۔ فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے کہنے پر متروکہ املاک بورڈ نے مندر کی زمین کا ایک حصہ مدرسہ انتظامیہ کے حوالے کر دیا، جس سے مدرسے کی عمارت اور پھیل گئی۔

مندر کی پراپرٹی پر خسرہ نمبر یو-1310 اور 1310یو/اے پر مدینہ مارکیٹ کے نام سے 103 دکانیں تعمیر کی گئیں جبکہ 22 مزید دکانیں خسرہ نمبر 1330 یو اور 1331یو پر تعمیر کی گئیں تھیں۔ مندر کی زمین پر قبضہ کا یہ ایشو 1985ء میں اس وقت کے وفاقی سیکرٹری برائے مذھبی امور کے سامنے اٹھایا گیا تھا جو اب تک حل نہیں ہوسکا۔ محکمہ متروکہ املاک بورڈ یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ اتنی زمین پر اس قبضے کے خلاف اس وقت کے آمر جنرل ضیاءالحق کے قابضین کے ساتھ گہرے تعلقات اور رشتوں کی وجہ سے خاموش رہا اور بعد میں قابض گروہ زبردست مذھبی طاقت اور پرتشدد قوت کا حامل ہوگیا تو اس کے خوفناک ردعمل کی وجہ سے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔

جس وقت مسجد، مدرسہ اور مارکیٹ کو جلایا گیا تو ریسکیو حکام نے آگ والی جگہ جانے کے لیے ہملٹن روڈ والی سائيڈ سے پلازہ کی عمارت کو توڑا تو عمارتوں میں گھرے مندر کے آثار واضح ہوگئے تھے۔ ہندؤ کمیٹی کے جگ موہن اروڑا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس مندر کا کبھی دورہ نہیں کیا کیونکہ یہ عمارتوں کے اندر چھپا ہوا تھا اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ مندر بھی گرا دیا گیا ہوگا کیونکہ 1992ء میں بابری مسجد کے واقعے کے بعد پنڈی میں 15 مندر گرائے گئے تھے،
متروکہ املاک راولپنڈی کا کہنا ہے کہ اس کی ملکیت میں دو رہائشی عمارتیں اور 6 کمرشل یونٹ ہیں جن میں مدرسہ، مسجد اور کپڑے کی مارکیٹ شامل ہے۔

مدرسے اور مسجد اور کلاتھ مارکیٹ کا مقدمہ 1985ء سے چل رہا ہے اور یہ اب فیڈرل سیکرٹری کے پاس زیر التواء ہے۔ متروکہ املاک بورڈ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آصف خان کا کہنا تھا کہ مسجد، مدرسہ اور مارکیٹ متنازعہ ہیں۔ مدرسے کے نگران مولوی اشرف علی کا کہنا ہے کہ جب پاکستان بن رہا تھا تو ہندوؤں ہندوستان جانے سے پہلے یہ زمین ان کے والد مولوی غلام اللہ خان کے حوالے کرگئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بدنیتی ہوتی تو مندر کیوں باقی رہتا۔
یاد رہے کہ مولوی غلام اللہ خان دیوبندی تکفیری اور خارجی خیالات کے حامل تھے اور وہ جنرل ضیاءالحق کے اسی طرح سے بہت قریب تھے، جیسے مولوی عبداللہ قریب تھے، جن کو اسلام آباد میں سی ڈی اے کی جگہ پر قبضہ ضیاءالحق نے کروایا تھا اور مولوی غلام اللہ خان کو بھی آمر ضیاءالحق کی قربت نے زبردست مالی فائدہ پہنچایا اور مندر کی زمین پر قبضہ کرنے میں مدد دی

افغان جنگ کے دوران جنرل ضیاءالحق نے اسلام آباد، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں تکفیری خارجی دیوبندی فکر کے حامل مولویوں کو سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے مسجدیں اور مدرسے تعمیر کرنے کی اجازت دی اور یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا، جس سے تکفیری دیوبندی خارجی گروہ بہت طاقتور ہوا اور پاکستان میں فساد فی الارض کے قابل ہوا۔ آج یہ گروہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے میں سب سے آگے ہے۔ اس گروہ نے چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقعہ پر فیض آباد میں جس کھلی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا اور ریاست کو چیلنج کیا، اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ اپنے آپ کو ناجائز وسائل کے ذریعے کس قدر طاقتور سمجھنے لگا ہے۔

مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت متروکہ املاک بورڈ کی زمین پر قابض گروہ کو نہ صرف ان کے نقصان کے ازالے کے نام پر اربوں روپیہ ادا کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے بلکہ اس متنازعہ زمین پر نئی تعمیرات کراکر قبضے کو قانونی شکل بھی دینا چاہتی ہے۔ اس سانحہ کے دوران آگ تکفیری خارجی دیوبندیوں نے خود لگوائی اور اس کا ایک مقصد تو مسجد اور مدرسے کے نیچے بنی ہوئی دکانوں کے کرائے مرضی سے لینا ہیں، گویا دو ناجائز قابضین کے درمیان جھگڑے کا یہ شاخسانہ تھی۔
خبر کا کوڈ : 335167
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش