0
Sunday 27 Jan 2013 23:50

کل تک جو تحفظ ناموس رسالت(ص) کی ریلیاں نکالتے رہے آج وہی میلادالنبی(ص) کے جلوسوں پر حملہ کرتے ہیں، مفتی ہدایت اللہ پسروری

کل تک جو تحفظ ناموس رسالت(ص) کی ریلیاں نکالتے رہے آج وہی میلادالنبی(ص) کے جلوسوں پر حملہ کرتے ہیں، مفتی ہدایت اللہ پسروری
مفتی ہدایت اللہ پسروری 1942ء میں انڈیا کے ضلع کانگڑا میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام میاں غلام مصطفی تھا جو کہ اپنے دور کے نامور عالم دین تھے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں آباد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پسرور شہر سے حاصل کی اور آٹھویں جماعت کے بعد والد صاحب کی خواہش پر پسرور میں ہی اُس وقت کے بُزرگ عالم دین حافظ محمد علی پسروری سے علم دین حاصل کرنا شروع کیا۔ بعدازاں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں داخلہ لیا اور فنون کی تعلیم وہاں سے حاصل کی۔ اُس کے جامعہ رضویہ فیصل آباد، وزیرآباد اور جامعہ انوارالعلوم ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے تعلیم حاصل کی۔ جس کے بعد1965ء سے آپ ملتان میں دین خداکی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ آپ زمانہ طالبعلمی سے ہی جمیعت علمائے پاکستان میں شامل تھے۔ آپ جمیعت میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے اور آپ نے علامہ شاہ احمد نورانی کے ساتھ بھی کام کیا۔ آج کل آپ جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گذشتہ روز ملکی مجموعی صورتحال پر انٹرویو کیا جو کہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: علامہ طاہرالقادری کا اپنے آپ کو حسینی کہنا جبکہ لوگوں کی جانب سے اُسے یزیدی کردار کہنا۔ ان کرداروں کے بارے میں کیا کہیں گے؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: میں سمجھتا ہوں کہ چاہے سیاسی لیڈر ہوں یا مذہبی رہنما اُنہیں اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو حسین (ع) کہہ دے اور مدمقابل کو یزید۔ تمام قائدین کو اس طرح کی اصطلاحات اور الفاظ سے بچنا چاہیئے اور پھر جو پروگرام طاہر القادری لے کر اسلام آباد آیا ہے یہ پروگرام تو امام حسین (ع) میدان کربلا میں لے کر نہیں گئے تھے۔ اگر قادری صاحب یہ کہتے کہ میں کملی والے آقا (ص) کے نظام کو لے کر جا رہا ہوں یا امام عالی مقام (ع) کے مشن کو لے کر جا رہا ہوں، جب تک پاکستان میں اسلام نافذ نہیں ہوتا، نظام مصطفی (ص) کا انقلاب نہیں آتا اُس وقت تک یا تو میں بیٹھا رہوں گا یا مرجائوں گا، لیکن علامہ طاہرالقادری نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی۔ 

اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ غیراسلامی نظام ختم کیا جائے یا پاکستان میں جو بےحیائی اور بےپردگی کا دور آ رہا ہے اُسے ختم کرنے جا رہا ہوں؟ پہلے اُنہوں نے ریاست بچائو کا نعرہ لگایا پھر اُس میں سیاست بھی اور جمہوریت بھی آ گئی، اور بالآخریہ ہوا کہ جن کو کچھ دیر پہلے یزید اور بہت کچھ کہہ رہے تھے اُنہیں کے ساتھ مل گئے۔ بہرحال یہ اُن کا اپنا پروگرام تھا لیکن اس طرح کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیئے اس لیے کہ یہ مقدس ترین مشن تھا امام عالی مقام حضرت امام حسین (ع) کا۔ کہاں ہم لوگ اور کہاں امام عالی مقام ؟ عوام کے جذبات اُبھارنے کے لیے اس طرح کی لفاظی کرنا صحیح نہیں ہے۔ 

اسلام ٹائمز: متحدہ دینی محاذ کہ جس میں آپ کی جماعت بھی شامل ہے، کیا آئندہ انتخابات میں کوئی رول اداکرسکتی ہے؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: انتخاب تو ایک وقتی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے خیال میں دینی جماعتوں کوکُفر کے مقابلے اکٹھاہونا چاہیے۔ جس طرح قائد اہلسنت، قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم کی قیادت میں اکٹھے تھے۔ا ُس وقت پاکستان کے اندر اور باہر لوگوں نے بڑی برکتیں دیکھیں۔ لیکن نورانی صاحب کی وفات کے بعد اتحاد کی وہ برکتیں اُٹھ گئیں۔ ہماری دُعاہے کہ نورانی صاحب کے بعد اُن کا کوئی جانشین آئے اور وحدت کی اس کمی کوپورا کرے۔ تاکہ دنیا کفر کو پتہ چل سکے کہ کوئی قوت ہمارے سامنے مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ وتیار ہے۔ رہی بات آئندہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کی تو ابھی اس طرح کے کوئی اعلانات نہیں ہوئے۔ اگر جمیعت کے قائد علامہ ابولخبیر زبیر صاحب اس حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے تو ہم اُن کی پیروی کریں گے۔ 

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد حالات قدرے بہتر ہو گئے ہیں لیکن اس دوران مولانا فضل الرحمن کی جانب سے گورنر راج کے خلاف تحریک کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: بلوچستان کی صورتحال اس وقت سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھ رہی ہے، آپ نے دیکھا کہ جس طرح حکومت نے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کی اپنی ایک سوچ ہے۔ صرف مولانا فضل الرحمن ہی نہیں بلکہ تمام جماعتوں کو بشمول ہزارہ برادری کے رہنما مل بیٹھ کر اس پر غور فکر کریں کہ بلوچستان کا مسئلہ کیسے حل کیا جا سکتا ہے، اور یہ سب مل کر ایسا فیصلہ کریں کہ جو قوم، ملک اور وہاں کے مظلوم ہزارہ برادری کے حق میں ہو۔ وقتی طور پر بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے سے وہاں کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ جن شہداء کی میتیں کئی گھنٹوں سے سڑک پر پڑی تھیں۔ اُن کا احتجاج اپنی جگہ موثر ثابت ہوا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں کسی طرح سے امن قائم ہو چاہے وہ پولیس کرے، ایف سی کرے یا فوج۔ بلوچستان میں چونکہ پولیس ناکام ہو گئی ہے اور اُس وقت گورنر راج کا نفاذ وفاقی حکومت کا اچھا اقدام تھا جس سے وقتی طور پر صوبے اور ملک کو امن حاصل ہوا ہے جو کہ ضروری تھا۔
 
اسلام ٹائمز: جمعیت علمائے پاکستان کی جنوبی پنجاب میں کیا فعالیت ہے؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: اللہ کے فضل و کرم سے جنوبی پنجاب میں جمعیت علمائے پاکستان کی اچھی صورتحال ہے، جنوبی پنجاب میں ملک کے دیگر حصوں سے بہتر صورتحال ہے اور جو فیصلہ مرکز کا ہوگا وہی فیصلہ صوبوں اور اضلاع کا ہو گا۔ عام انتخابات کے حوالے سے ابھی تک کسی طرح کا الائنس نہیں بنا۔ 

اسلام ٹائمز: پاکستان سے فرقہ واریت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: پاکستان میں فرقہ واریت کی تاریخ پُرانی ہے لیکن اس میں شدت جنرل ضیاءالحق کے دور میں آئی۔ اسی کے دور میں یہ لشکر بنائے گئے اور مشرف کے دور میں بھی فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ ہمارے ملک میں جب ایک فرقہ وارانہ جماعت پر پابندی لگائی جاتی ہے تو وہ اپنا نام تبدیل کرکے اپنی منافرانہ سرگرمیاں جاری رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے افراد موجود ہیں جو ان جماعتوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ فرقہ واریت کی روک تھام اس صورت میں ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں اور ایک دوسرے کی مقدسات کی توہین نہ کی جائے۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر ہم کسی کے باپ کو گالی دیں گے تو وہ بھی ہمارے باپ کو اُسی طرح سے یاد کریں گے۔
 
اسلام ٹائمز: پاکستانی عوام روز بروز امریکی قرضے کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہے لیکن ہمارے حکمران کیا کر رہے ہیں؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: پاکستان کے حکمران پہلے امریکہ سے پالش ہو کر آتے ہیں اور ہمارے اوپر مسلط کیے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران پہلے پاکستان کی بجائے امریکہ کی وفاداری کا حلف اُٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی سمت تبدیل کرلی ہے، اللہ اور اُسکے رسول(ص) کی رضا کی بجائے امریکہ کی رضا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے جس کی رضا چاہتے ہیں وہی اُن کا آقا و مولا ہو گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے بعد ایسا کوئی حکمران نہیں آیا جو اپنے وعدے پر قائم رہتا۔ ملکی معیشت اور معاشرت کو سہارا دیتا؟ آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسلام کا نام لے کر اسلام آباد پہنچنا چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، نظام پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ 

یہ ہمیں سزا مل رہی ہے کہ جو ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اس ملک میں خدا و رسول (ص) کا نظام نافذ کریں گے۔ آج ہم سے آدھا پاکستان کٹ چکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر آپ نے اس طرح کی زندگی گذارنا تھی تو ہندئووں سے جُدا کیوں ہوئے۔ تحریک پاکستان میں مشرقی پاکستان کے مسلمان رہنمائوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ جب پاکستان کے لوگوں نے اسلام سے منہ پھیر لیا تو خدا کی نعمتوں نے بھی ہم سے منہ پھیر لیا۔ یہ جو ہمارا مغربی پاکستان ہے اس کو بچانے کی ایک ہی صورت ہے کہ اس میں صحیح معنوں میں نظام مصطفی (ص) نافذ کیا جائے۔ زبان کی بنیاد پر وجود میں آنے والی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا جائے۔ جن میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے جو کہ ہر ظلم کا ساتھ بھی دیتی ہے اور مظلوم کی حمایت بھی کرتی ہے۔ اسی طرح جو لوگ صوبائی عصبیت پھیلا رہے ہیں اُن کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ 

اسلام ٹائمز: کیا موجودہ گیس کے بحران کے پیش نظر پاک ایران گیس پائپ لائن کو مکمل ہونا چاہیئے؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: ہمارے ملک کا صرف گیس کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پانی، بجلی، زراعت اور دیگر بحران بھی ہمارے سامنے ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن پاکستان کے مفاد میں ہے جسے فی الفور مکمل کرنا چاہیئے۔ حکومت کے اولین فرائض میں سے ہے کہ عوام کے مفادات کا مکمل خیال رکھے۔ پاکستانی حکومت پر صرف پاک ایران گیس پائپ لائن کی وجہ سے دبائو نہیں بلکہ ایسے بہت سے پراجیکٹس ہیں جو شروع ہونے ہی نہیں دیئے جا رہے۔ پاکستانی حکومت چونکہ امریکی پیداوار ہے اسی لیے یہ اسکی مجبوری ہے۔ جب آپ نے کسی کی غلامی اختیار کرلی ہے تو آپ اُس کے ماتحت ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: عید میلادالنبی (ص) کے جلوسوں پر حملہ کرنا اور اس کے خلاف تشدد کی پالیسی کا اختیار کرنا؟ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: سرکار دو عالم (ص) پوری کائنات کے لیے اللہ کی جانب سے رحمت اور نعمت ہیں، پوری کائنات ان کے صدقے میں بنی ہے، اور یہ شروع دن سے سلسلہ ہے کہ اگر میرے گھر میں خوشی ہوتی ہے تو میں خوشی کی تقریب کا اہتمام کرتا ہوں لہذا جو لوگ رسول اکرم (ص) کی ولادت کی خوشی میں خوش نہیں ہوتے تو وہ مسلمان کہلانا چھوڑ دیں۔ دوسری بات اُصولی طور پر یہ کہ جو بھی حضور (ص) کے میلاد کو نہیں مناتا یا ان پر حملہ کرتا ہے اُس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں۔ کل تک جو تحفظ ناموس رسالت (ص) کی ریلیاں نکالتے رہے، اگر اُن ریلیوں کے اندر جواز ہے تو ان جلوسوں میں کیوں نہیں؟ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اسلام سربلند ہو گا۔ اُن لوگوں کو بھی چاہیئے کہ اگر وہ اپنے آپ کو عاشق رسول (ص) کہتے ہیں تو اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز آ جائیں۔
خبر کا کوڈ : 234784
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش