0
Friday 20 Apr 2012 02:37

سندھ پولیس کی فعالیت کے لئے مددگار 15 کو فعال کر دیا گیا

سندھ پولیس کی فعالیت کے لئے مددگار 15 کو فعال کر دیا گیا
اسلام ٹائمز۔ ہمارا ملک جہاں اقرباء پروری، رشوت خوری، کرپشن اور بڑے بڑے اسکینڈلز کی آماجگاہ بنا ہوا ہے وہیں اس کے ہر شہر ہر طرح کے معاشرتی جرائم کی لپیٹ میں ہیں۔ پورا ملک مجرموں، ڈاکوﺅں اور لیٹروں، قبضہ خوروں کے قبضے میں ہے، بھتہ خوری، چوری و ڈاکہ زنی ہر طرح کے اسٹریٹ کرائم میں ہم نے ورلڈ ریکارڈ بنالیا ہے۔ چنانچہ باہر ممالک میں رہنے والے پاکستانی کمیونٹی کو بھی ہمارے یہاں کے بدترین کرتوتوں کی بعض اوقات سزا ملتی ہے، انہیں بھی غیر ممالک میں ہمارا اصل عکس سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک میں جرائم یا بے راہ روی اور دیگر ہر قسم کی خباثتوں کو اس وقت فروغ ملتا ہے جب وہاں ایسے افراد کی حکومت ہو جو خود کرپٹ ہوں اور تمام محکموں میں بھی اقرباء پروری و کرپشن کے تحت ہی افسران و ذمہ داران کا تقررکیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے احتساب کا سلسلہ بالکل نہیں ہوتا۔ احتساب کریگا کون اور کس کا؟ کیوں کہ ایسے عالم میں جب کہ پورا عام ننگا ہو تو کون کسے پکڑسکتاہے ۔ چنانچہ جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے بے روزگاری، غربت و افلاس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے جرائم اور کرائم میں بڑی تیزی اور شدت کے ساتھ اضافہ ہواہے اور ہورہا ہے۔ کیوں کہ یہاں کوئی کچھ بھی کر جائے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

ہم سنتے آئے ہیں کہ آج سے سینکڑوں ہزاروں سال قبل جہالت کے زمانے میں وہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، والا قانون رائج تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہی پرانا قانون تو آج بھی رائج ہے۔ جسکی واضح مثال یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ طاقتور ہے وہ اتناہی بڑا کرپٹ لٹیرا، ڈاکو اور چور ہے اور اگر سوئے اتفاق قانون ہمارے ملک میں کوئی رائج ہے بھی تو وہ محض ان غریبوں اور مسکینوں کے لئے جنہیں پہلے غربت و بے روزگاری اور مہنگائی کے عذاب نے مار رکھا ہے۔ 

بہر کیف ہمارے ملک میں جہاں مجبوری و بے کسی جرم کا باعث بنتی ہے وہاں پیٹ بھرے بگڑے نوجوان اور عادی مجرم بھی جرائم کا تواتر سے ارتکاب کرتے ہیں۔ ملک کے شہریوں کی جان مال، عزت و آبرو کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے جس کے لئے حکومت نے قانون نافذ کرنے والے ادارے قائم کررکھے ہیں اور وہ ادارے کس حد تک کامیاب یا ناکام ہیں، یہ ہم سب اور خود حکومت بھی جانتی ہے۔ اب تو جرائم کا دائرہ کار اس حد تک بڑھتا جارہا ہے کہ بیرون ملک سے آتے ہوئے غیر ملکی سرکاری مہمان بھی مقامی افراد کی لوٹ مار اور ڈاکہ زنی سے محفوظ نہیں جبکہ وفاقی وزراء سید خورشید شاہ اور بابر خان غوری کے عزیز رشتہ داروں کا کراچی کی سڑکوں پر لٹ جانا تو انتہائی الارمنگ سچویشن (Alarming Situation) کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔

ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حکومت اس وقت تک کسی بھی معاملے اپنے سرد مہری اور عدم دلچسپی کے رویے کو ختم نہیں کرتی، جب تک پانی سر سے نہ گزرجائے اب چونکہ حال ہی میں دو وفاقی وزراء کے عزیزوں کا لٹ جانا خود حکومت کے لئے ایک چیلیج بن گیا ہے، جس کے باعث حکومت نے اب کچھ سخت اقدامات کرنا شروع کردیئے ہیں۔ پولیس کے مرکزی مدد گار کال سینٹر "15" کی فعالیت بھی دراصل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہی لگتا ہے۔ حکومت کو اپنے اداروں کی ناکامی کا احساس ہوگیا ہے، چنانچہ شہر میں ہونے والی جرائم کی وارداتوں کی اطلاعات پر بروقت اور کم سے کم وقت میں کارروائی کو یقینی بنانے نیز قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اپنی نقل و حرکت پر بھی نگاہ رکھنے کے لئے حکومت نے کراچی میں پولیس کا مرکزی مدد گار سینٹر "15" قائم کرکے اسے فوری طور پر فعال کردیا ہے۔ تاکہ شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم پر قابو پایا جاسکے۔ مذکورہ مددگار سینٹر میں بیک وقت 60آپریٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں۔

حکومت سندھ کی جانب سے جاری کردہ ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق سندھ پولیس کو انفار میشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ نے شہر بھر میں جرائم کی وارداتوں پر بروقت کارروائی اور پولیس کی جانب سے جائے وقوعہ پر کم سے کم وقت میں پہنچنے کی غرض سے قائم کئے جانے والے مدد گار "15" کال سینٹر نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق مدد گار 15 کال سینٹر پر موصول ہونے والی شہریوں کی فون کالز پر متعلقہ تھانے کی حدود میں موجود پولیس موبائلوں اور مددگار 15 پولیس کو اطلاع دی جائے گی، جس کے بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچ کر کارروائی کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سنٹرل پولیس آف کراچی میں قائم کئے جانے والے مددگار 15کال سینٹر میں نصب ڈیجیٹل میپ اسکرین پر شہر بھر میں موجود پولیس کی موبائلوں اور کاروں کی پوزیشن دیکھ کر جائے وقوع سے قریب تر گاڑی کو پیغام دیا جائے گا جس سے جائے وقوع پر پہنچنے کے وقت میں کمی کی جاسکے گی اور بر وقت کارروائی کے نتیجے میں ملزمان کی گرفتاری میں بھی مدد مل سکے گی۔

مرکزی مددگار کال سینٹر میں بیک وقت 60 آپریٹرز موجود موجود ہوں گے، جبکہ کسی خرابی یا ایمرجنسی کی صورت میں 30 ٹیلی فون لائنیں بیک اپ میں موجود ہوں گی، جو ایمر جنسی کی صورت میں خود کار نظام کے ذریعے فعال ہوجائیں گی۔ مرکزی مدد گار کال سینٹر میں کام کرنے والے 150 سے زائد پولیس افسران و اہلکاروں کو تربیت دی گئی ہے جو تین شفٹوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکزی مددگار 15 سینٹر کا آپریٹر آپریشن روم میں فوری منتقل کرے گا۔ جہاں موجود پولیس افسران متعلقہ تھانے کو اطلاع دینگے۔ متعلقہ تھانے یا مددگار 15 پولیس موبائل کے عملے کو اطلاع دیئے جانے کے بعد آپریشن روم میں نصب ڈیجیٹل میپ کے ذریعے پولیس اہلکاروں کے جائے وقوع تک پہنچنے کا وقت بھی نوٹ کریں گے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس موبائلوں کی حرکات و سکنات پر پولیس موبائلوں اور گاڑیوں میں نصب ٹریکرز کی مدد سے نظر رکھی جاسکے گی۔ واضح رہے کہ شہر بھر میں پولیس کی 100 سے زائد موبائلوں اور کاروں میں ٹریکرز نصب کئے جاچکے ہیں اور ان گاڑیوں میں ایک اسکرین بھی نصب کی گئی ہے جس پر پولیس موبائل یا کار میں موجود افسران و اہلکاروں کو ایس ایم ایس پیغام کے ذریعے بھی اطلاع دی جائے گی اور مذکورہ پولیس موبائل یا مددگار میں موجود پولیس افسران جائے وقوع پر پہنچ کر مرکزی کال سینٹر کو اطلاع دیں گے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکزی مددگار 15 کال سینٹر سے شہر میں موجود مددگار 15 کے دیگر 15 مراکز بھی منسلک ہوں گے۔ مرکزی کال سینٹر کا انچارج ایس پی رینک کا افسر ہوگا۔ جبکہ ہر علاقے میں موجود مددگار 15 مرکز کا نگراں بھی ایس پی رینک کا افسر ہوگا جبکہ سب انسپکٹر رینک کا افسر مددگار 15 مرکز کا انچارج ہوگا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس سب کے باوجود بھی جرائم نہیں رکے تو پھر حکومت کے پاس کونسا آپشن ہوگا، جس پر عملدرآمد کیا جاسکے؟ ہماری رائے ہے کہ حکومت مذکورہ ادارے کی فعالیت اور ورکنگ پر احتساب سسٹم کو سختی سے نافذ کردے۔
خبر کا کوڈ : 154172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش