0
Tuesday 25 Dec 2012 21:07

بشیر بلور کی شہادت اور دہشت گردوں کے عزائم

بشیر بلور کی شہادت اور دہشت گردوں کے عزائم
تحریر: سید محمد ثقلین 

اے این پی کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر بشیر بلور خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئے۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں دہشت گردوں نے ایک اہم اور بڑے ٹارگٹ کو کامیابی سے نشانہ بنایا اور پاکستانی سیاست پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اے این پی کی قیادت ان تمام گروہوں اور لوگوں میں شامل ہے جن کو تحریک طالبان اور وہ تمام عسکریت پسند گروپ اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں جو نائن الیون کے بعد سے اور افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان اور افغانستان میں اپنے طور جہاد کر رہے ہیں۔ اے این پی کے رہنما، ان سے وابستہ دانشور، ایم این ایز اور ایم پی ایز، شاعر، ادیب اور نوجوان سب کے سب ان دہشت گرد تنظیموں کے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس عمل میں تیزی آنے اور پشاور ایئرپورٹ، بنوں پولیس کو نشانہ بنانے کے بعد بشیر بلور پر کامیاب حملہ ظاہر کرتا ہے کہ عسکریت پسند پاکستان کے اندر عنقریب ممکنہ انتقال اقدار کے مرحلے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، اس لئے ایک طرف تو اچانک پورے ملک میں پولیو مہم چلانے والے کارکنوں پر حملے شروع کئے گئے تو دوسری طرف کراچی اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ میں شدت آگئی ہے اور اب خبیر پختونخوا کے حالات کو بگاڑا جارہا ہے۔ یہ ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ لگتا ہے اور کوشش یہ کی جارہی ہے کہ حالت کو اس قدر خراب دکھایا جائے کہ ہر قسم کے سیاسی عمل کو ناممکن بنا دیا جائے۔

عسکریت پسند ایک طرف تو پورے پاکستان میں افراتفری اور دہشت گردی کو پھیلارہے ہیں تو دوسری طرف وہ پورے ملک کو نسلی اور مذہبی سول وار کی طرف دھکیلنے کی منظم منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مولانا اسماعیل کے قاتل کا ایک طالب ہونا ثابت کرتا ہے کہ تحریک طالبان بہت چالاکی کے ساتھ ایک طرف تو شیعہ کمیونٹی کی نسل کشی پر عمل پیرا ہے تو دوسری طرف وہ دیوبندی سنی مسلک کے علما کا قتل کر کے سنی دو بندی اور شیعہ عوام کے درمیان جنگ کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح سے بریلوی سنی مسلک کے مزارات پر حملے کر کے ان کو بھی وہابی اور دیوبندی عوام کے خلاف اکسانے کی سازش کی جارہی ہے۔ تحریک طالبان، لشکر جھنگوی اور دوسرے دہشت گرد گروپس دن رات کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کی عوام نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھالیں اور نسلی اور مذہبی جنگ کو گلی گلی اور کوچہ کوچہ تک پھیلا دیا جائے یہ بھیانک منصوبہ بندی کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف تو ریاست کے اداروں کے اندر نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ایڈمنسٹریشن تقسیم ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں ویسی لڑائی شروع ہو جائے جیسی لڑائی ہم نے پہلے عراق میں دیکھی پھر لیبیا میں دیکھی اور اس کے بعد اس لڑائی کو ہم شام میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ 

شام، لیبیا اور عراق میں سول جنگ کے اندر ہزاروں لوگ مارے گئے اور یہ معاشرے، اب معلوم نہیں کتنی دیر نسلی اور مذہبی آگ میں جلتے رہے گیں؟ اسی طرح کا نظارہ ہم شام میں دیکھ رہے ہیں جہاں رہنے والی تمام مذہبی اور نسلی کمیونٹیز آج عملی طور پر ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں اور ستر ہزار سے زائد شامی مسلمانوں کو شدت پسند باغیوں نے مذہب اور نسل کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ مصر میں بھی بہت تیزی کے ساتھ مذہبی اور نسلی تضاد میں شدت آرہی ہے اور یہ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے، اس وقت افریقہ میں جو مسلم اکثریتی ملک ہیں وہاں بھی بدترین خانہ جنگی کا سامنا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلم ملکوں میں خون کی ہولی اور خانہ جنگی کی سی کیفیت اس وقت پیدا ہوئی جب القاعدہ، طالبان، الشباب اور دوسرے عسکریت پسند گروپوں نے بندوق اور بارود سے اختلاف کو مٹانے اور اپنی مرضی کے مطابق معاشرے کی تشکیل پر زور دینا شروع کر دیا اور سامراج ان کا بہانہ بناکر خطہ میں گھس آیا۔ پاکستان کے اندر اور پورے جنوبی ایشیا کے اندر یہ افغان وار تھی جس کی امریکی سرپرستی اور سعودی عرب کی پشت پناہی نے مسلم سماج کے اندر نجی لشکروں کی ایک فوج پیدا کردی اور ان کو افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل کر ڈالا اور پھر یہ عسکریت پسند اپنی آئیڈیالوجی کو زبردستی نافذ کرنے کے راستے پر چل نکلے یہ حقیقت ہے کہ یہ سارے گروہ سیکولرازم اور لبرل ازم کے ساتھ ساتھ روشن خیالی، عقلیت پسندی کو جواز دینے والی اس آئیڈیالوجی کے بھی سخت مخالف ہیں جو اسلام کی بنیاد پر ان اقدار کو اسلامی اقدار کہتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی جیسی جماعتوں کو تو یہ ویسے ہی کافر اور یہود نصاری کی پارٹیاں کہتے ہیں مگر یہ تو قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کو بھی کافر قرار دیتے ہیں اور بات چیت پر یقین ہی نہیں رکھتیں، یہ پاکستانی ریاست کو اور سماج کو کافر سماج اور ریاست خیال کر کے یہاں پر اپنا نظام لانا چاہتے ہیں۔ اب اس راستے میں جو بھی آئے یہ اس کو راستہ سے ہٹانے کے لئے کوئی بھی طریقہ کار اختیار کرسکتے ہیں۔ 
 
افغانستان کے ڈاکٹر نجیب کے دور کے وزیر ڈاکٹر صالح زائری نے کہا تھا کہ طالبان کرائے کے قاتلوں کا ایک گروہ ہے اور اس گروہ کو بہت سارے ملک اور بہت ساری ایجنسیاں جب چاہتی ہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کرلیتی ہیں، یہ گروہ بیک وقت پاکستان کے اندر بھی مختلف طاقتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہورہا ہے اور ان کام لینے والے گروہوں کا مقصد ہے کہ پاکستان کے اندر مذہبی اور نسلی بنیادوں پر کھلی خانہ جنگی کو فروغ دینا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کا ایک مقصد تو پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو ملک کے اندر ہی انگیج رکھنا ہے تاکہ پاکستان ڈیپ اسٹیٹ تھیوری پر عمل نہ کرسکے اور اس کا دوسرا مقصد پاکستان کے اندر روشن خیال، انسان دوست، رودار سوچ کے مالک انسان دوستی کے فلسفے کو آگے لیکر نہ جاسکے۔ اسی لئے ہر اس آدمی کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو روشن خیالی کی علامت ہوا کرتا ہے یا اس کو آگے بڑھانے کا کام کر رہا ہوتا ہے ۔

بشیر بلور صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایسی ہی آواز تھے۔ خیبر پختونخواہ میں تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی ٹائپ کے عنصر نے اجتماعی تجربہ کار دانش کو ختم کرنے کی منظم منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور یہ کام وہ اسی طرز پر سرانجام دے رہی ہے جس طرح سے اس نے فاٹا کے اندر انجام دیا تھا-تحریک طالبان نے افغانستان میں ڈاکٹر نجیب کو پھانسی دینے کے ساتھ ساتھ ان کی لاش کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ سلوک افغانستان کے ہر اس آدمی اور عورت کے ساتھ ہوا تھا جو ان کی نظر میں کمیونسٹ تھا یا روشن خیال تھا۔ افغانستان میں اپنے جبر کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد انہوں نے القاعدہ کے ساتھ ملکر اس بربریت کو پاکستان کے اندر بھی پھیلا دیا۔ آج ایک طرح سے عسکریت پسند سماج کے بہترین دماغوں کو موت کی ننید سلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ گلی گلی بس ان کی حماقتوں کا اور بےتحاشا جبر کا راج ہو اور کوئی ان کے نقاب کو اپنے علم اور تجربے سے نہ روک سکے۔ لیکن ہم سب کو اس ظلم اور بربریت کے خلاف اور اپنے سماج میں ایک ممکنہ خانہ جنگی کو ہونے سے روکنا ہے۔ اس کے لئے اس سماج کی ورکنگ کلاس کو متحد ہونا ہوگا اور نسلی، مذہبی منافرتوں کے خلاف ڈٹ کر جدوجہد کرنا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 224920
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش